رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: نئےپاکستانی سفیر کی تعیناتی


امریکی اخبارات سے: نئےپاکستانی سفیر کی تعیناتی
امریکی اخبارات سے: نئےپاکستانی سفیر کی تعیناتی

سنہ 2009 میں شیری رحمان نے وزیر اطلّاعات کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا تھا ، کیونکہ ذرائع ابلاغ پر پابندیاں عائد کرنے کی کوششوں پر صدر زرداری سے ان کے اختلافات تھے

سابق صحافی اور وفاقی وزیر ، شیری رحمان کے امریکہ کے لئے پاکستانی سفیر کی حیثیت سے تقرّری پر ’وال سٹریٹ جرنل‘ نے قدرے حیر ت کا اظہار کرتے ہوئے، نامزد سفیر کے اس بیان کو نوٹ کیا ہے کہ مسٹر حسین حقّانی کے سبکدوش ہو جانے سے پاک امریکی تعلّقات کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ۔

اخبار کہتا ہے کہ جہاں پاکستان میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مسٹر حقّانی کی برطرفی میں فوج نے کردار ادا کیا ہے، وہاں جمہوریت اور حقوق انسانی کی علمبردار مس رحمان کے تقرّر سے یہ امّید بحال ہونے کا امکان ہے کہ مسٹر زرداری کی حکومت میں ایک ایسی راہ پرچلنے کی صلاحیت ہے جو ایک حد تک فوج کی خواہشات کے تابع نہ ہو ۔

لمز LUMS یونیورسٹی کے پولیٹکل سائینس کے پروفیسر محمد وسیم کے حوالے سے اخبار کہتا ہے کہ اس تقرّر میں حیرت کی بات یہ ہے کہ سنہ 2009 میں شیری رحمان نے وزیر اطلّاعات کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا تھا , کیونکہ ذرائع ابلاغ پر پابندیاں عائد کرنے کی کوششوں پر صدر زرداری سے ان کے اختلافات تھے ۔

اخبار کہتا ہے کہ شیری رحمان قومی اسمبلی کی رکنیت برقرار رکھتے ہوئے پاکستان کے اہانت کے اُن قوانین کو کالعدم قرار دینےکی کوششوں میں پیش پیش رہی ہیں جن کے تحت پیغمبرِ اسلام کی اہانت کا مجرم قرار پانے والے کو پھانسی کی سزا دی جاسکتی ہے۔

ان قوانین کو منسوخ کرانے کے لئے پارلیمنٹ میں ایک ترمیمی مسودہء قانون پیش کرنے پر شیری رحمان کو جا ن سے مار دینے کی دہمکیا ں ملتی رہیں جس کے بعد وہ کچھ عرصہ روپوش رہیں اور پھر بقول پروفیسر وسیم کے انہوں نے حکومت کے دباؤ میں آ کر یہ ترمیمی مسوّدہ واپس لے لیا تھا، کیونکہ حکوت کو اندیشہ تھا کہ اس کی وجہ سے اسلام پسند تنظیمیں احتجاجی مظاہرے کرائیں گی۔

اخبار نے یہ بات بھی نوٹ کی ہے کہ شیری رحمان نےچند برس پہلے پارلیمنٹ میں وہ قانون پیش کیا تھا جس کی بدولت ناموس کے لئے قتل کی صدیوں پرانی روایت غیر قانونی قرار دی گئی تھی۔ بعض اوقات پاکستان میں قتل کی ایسی وارداتیں اب بھی ہوتی ہیں ۔

جناح انسٹی ٹیوٹ کے نام سے جو تحقیقی ادارہ شیری رحمان چلاتی رہی ہیں اس نے امریکہ کے ایک انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ مل کر رپورٹ شائع کی تھی کہ امریکہ کے افغانستان سے چلے جانے پر پاکستان اپنے لئے افغانستان میں کیا چاہتا ہے اور شائد یہ رپورٹ ان کی اس سوچ پر روشنی ڈالتی ہےجو ان کی اس نئی اسامی میں درپیش سب سے بڑے چیلنج سے نمٹنے کے لئے درکار ہوگی۔

اخبار کہتاہے کہ اس رپورٹ کےنتائج کے مطابق افغانستان میں امریکہ اور پاکستان کے مقاصد ایک دوسرے سے مختلف ہیں اوریہ کہ سنہ 2001 میں امریکی حملے کے نتیجے میں طالبان جنگجو سرحد پار پاکستان میں دھکیلے گئے۔ تو اس کے بعدمقامی پشتُون تنظیموں کی طرف سے پاکستان کی مملکت کے خلاف بغاوت شروع ہوئی ۔ رپورٹ میں اُن امن مذاکرات میں پاکستان کے لئے وسیع تر کردار ادا کرنے کی وکالت کی گئی ہے جن کی افغانستان اور امریکہ کی طرف سے کوشش ہو رہی ہے۔ لیکن جو ابھی تک بارآور نہیں ہوئی ہیں۔

رپورٹ میں افغانستان میں ہندوستان کے بڑھتے ہوئے رسوخ پر وہاں ایک غیر پشتُون حکومت کے امکان پر تشویش کا اظہار کیا گیاہے۔ اور پروفیسر وسیم کا خیال ہے کہ یہ حقیقت مس رحمان کے نئے تقرّرکی موزونیت کے لئے مددگار ثابت ہوئی ہوگی۔

اخبار ’بالٹی مور سن‘ میں امریکہ میں سیاست دانوں کو چندہ دینے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر محنت ، رابرٹ رائش ایک مضمون میں کہتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں سیاسی مقاصد کے لئے روپیہ لُٹانے پر اب کوئی قید نہیں ہے۔ اور سیاست دانوں کی جیب میں کروڑوں ڈالر ڈالے جاتے ہیں اور اس کا کوئی احتساب نہیں ہے۔ بڑے بڑے کاروباری اداروں کی طرف سے واشنگٹن کے لابی اسٹوں کو بے حساب پیسہ دیا جا رہا ہے جو یہ پیسہ زیادہ سے زیادہ سیاست دانو ں کی انتخابی مہموں میں بے دریغ استعمال کے لئے فراہم کرتے ہیں۔

رابرٹ رائش جو ایک معروف ماہر معاشیات ہیں کہتے ہیں کہ واشنگٹن اور وال سٹریٹ کے درمیان

ایک طرح کا رِوالوِنگ دروازہ قائم ہو گیا ہے جس کے ذریعے بنکوں کے عہدہ دار ، سرکاری عہدہ دار بنتے جا رہے ہیں، جو بنکوں کے فائدے کے قواعد مرتّب کرتے ہیں اور بعد میں واپس جاکر اپنے ہی وضع کردہ قواعد کی مدد سے پیسہ بناتے ہیں ، سابق ارکان کانگریس بھی لابی کرنے والوں کی صف میں شامل ہو رہے ہیں اور اپنے سابق رفقائےکار سے اپنے سر پرستوں کے مطلب کا کام کراتے ہیں۔

مضمون نگار نے ماہرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ سنہ 2012 کا انتخا ب سب سے گراں انتخاب ہوگا َ ، جس پر اندازاً 6 ارب ڈالر لاگت آئے گی اور جیسا کہ ری پبلکن سینیٹر جان میکین کہتے ہیں، حالات پہلے سے کہیں بد تر ہیں۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG