امریکہ نے چار دہائیوں میں پہلی بار جوہری ہتھیاروں سے لیس آبدوز جنوبی کوریا میں تعینات کی ہے جبکہ اتحادی ممالک نے شمالی کوریا کو خبردار کیا ہے کہ جنگ میں اس کے جوہری ہتھیاروں کے کسی بھی استعمال کے نتیجے میں پیانگ یانگ کی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا۔
شمالی کوریا کے بڑھتے ہوئے جوہری خطرے کے جواب میں اپریل میں امریکی اور جنوبی کوریائی صدور نے متعدد معاہدے کیے تھےجن میں سے ایک امریکی جوہری بیلسٹک میزائل سے لیس آبدوزوں کا جنوبی کوریا کا تواتر سےسفر کرنا بھی تھا۔
دونوں اتحادی ملکوں کے صدور نے دو طرفہ "نیوکلیئر کنسلٹیٹو گروپ" کے قیام اور فوجی مشقوں کو وسعت دینے پر بھی اتفاق کیا۔
جنوبی کوریا کی وزارت دفاع نے بتایا کہ "یو ایس ایس کینٹکی"، جو کہ ایک اوہائیو ۔کلاس آبدوز ہے، منگل کی سہ پہر جنوبی کوریا کی بندرگاہ بوسان پہنچی۔
سیول نے کہا کہ 1980 کی دہائی کے بعد امریکی جوہری ہتھیاروں سے لیس آبدوز کا جنوبی کوریا کا یہ پہلا دورہ ہے۔
جنوبی کوریا کی وزارت نے ایک بیان میں کہا کہ وزیر دفاع لی جونگ سوپ نے آبدوز کے دورے کو "توسیع شدہ ڈیٹرنس" کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس امریکی عزم کا مظہر قرار دیا، جو اپنے اتحادیوں کے تحفظ کے لیے جوہری ہتھیاروں سمیت اپنی مکمل فوجی صلاحیتیں استعمال کرنے سے متعلق ہے۔
انہوں نے کہا کہ آبدوز کا دورہ "شمالی کوریا کے خلاف اتحادیوں کی زبردست صلاحیت اور انداز کو ظاہر کرتا ہے۔"
خبر رساں ادارے "ایسو سی ایٹڈ پریس" نے رپورٹ دی ہے کہ امریکی سائنسدانوں کی فیڈریشن کے مطابق 1970 کی دہائی کے اواخر میں سرد جنگ کے دوران، امریکی جوہری ہتھیاروں سے لیس بیلسٹک میزائل آبدوزوں نے جنوبی کوریا کے اکثر دورے کیے۔ بعض اوقات یہ دورے مہینے میں دو یا تین بار ہوئے تھے۔
یہ وہ دور تھا جب امریکہ کے پاس جنوبی کوریا میں سینکڑوں جوہری وار ہیڈز موجود تھے۔ لیکن 1991 میں امریکہ نے جزیرہ نما کوریا سے اپنے تمام جوہری ہتھیاروں کو واپس لے لیا تھا۔
موجودہ تناظر میں اب شمالی کوریا کے جوہری عزائم نے ایک ایسی صورت حال پیدا کی ہے جس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
پیانگ یانگ نے اپنے حریفوں کے ساتھ تنازعات میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دےرکھی ہےاور گزشتہ سال کے آغاز سے اب تک تقریباً 100 میزائل تجربات کیے ہیں۔
گزشتہ ہفتے، شمالی کوریا نے ایک زیادہ موبائل اور طاقتور بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کا دوسرا تجربہ کیا تھا جو سرزمین امریکہ کو نشانہ بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔
اس لانچ کا مشاہدہ کرنے کے بعد، شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے اپنے ملک کی جوہری جنگی صلاحیتوں کو مزید مضبوط کرنے کا عزم کیا تھا۔
منگل کو بھی، جنوبی کوریا اور امریکی حکام نے شمالی کوریا کے جوہری خطرات کے خلاف "ڈیٹرنس" کو مضبوط کرنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے سیول میں نیوکلیئر کنسلٹیو گروپ کا افتتاحی اجلاس منعقد کیا۔
ملاقات کے بعد دونوں ممالک نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ "شمالی کوریا کی طرف سے امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے خلاف کوئی بھی جوہری حملہ ناقابل قبول ہے اور اس کے نتیجے میں اس حکومت کا خاتمہ ہو گا۔"
خیال رہے کہ صدر جو بائیڈن نے اپریل میں جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول کے ساتھ واشنگٹن میں اپنی سربراہی ملاقات کے بعد اسی طرح کی وارننگ جاری کی تھی۔
درین اثنا، جنوبی کوریا کی سرحد پار کر کے بھاگتے ہوئے شمالی کوریا جانے والے امریکی فوجی کے اس عمل کے بارے میں اے پی نے مزید تفصیلات فراہم کی ہیں۔
نیوزی لینڈ سے آئی سرحد پر موجود سیاح سارا لیزلی نے اے پی کو بتایا کہ امریکی فوجی، جسے ٹریوس کنگ کے نام سے شناخت کیا گیا ہے، بھاگ کر جنوبی کوریا کی سرزمین سے شمالی کوریا چلا گیا۔ جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس کنگ، 43 سیاحوں پر مشتمل گروپ میں شامل تھ جس میں لیزلی بھی شامل تھی۔ کنگ کے حوالے سے لیزلی نے بتایا کہ اسے اس بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ ایک امریکی فوجی ہے اور یہ کہ اسے عدالتی کاروائی کا سامنا ہے۔
اے پی کے مطابق 23 سالہ کنگ امریکہ کی فرسٹ آرمرڈ ڈویژن میں گھڑ سوار اسکاوٹ تھا۔ وہ ایک حملے کے الزام میں جنوبی کوریا کی ایک جیل میں تقریباً دو ماہ کی قید پہلے ہی گزار چکا تھا۔
اسے 10 جولائی کو رہا کیا گیا تھا اور اسے پیر کے روز امریکی ریاست ٹیکساس کے فورٹ بلس واپس لوٹنا تھا، جہاں اسے مزید فوجی سزا دی جاسکتی تھی اور سروس سے برخواست بھی کیاجا سکتا تھا۔
لیزلی نے اے پی کو بتایا کہ کنگ اکیلا سفر کر رہا تھا اور دوران سفر اس نے کسی سے بھی بات نہ کی۔
جب گروپ کا سیاحتی دورہ ختم ہونے والاتھا لوگ تصویریں اتارنے کا سوچ رہے تھے عین اس وقت لیزلی نے کنگ کو تیزی سے بھاگتے ہوئے دیکھا۔ لیزلی نے کہا کہ پہلے وہ سمجھی کہ شاید یہ سیاح ٹک ٹاک کے لیے کوئی احمقانہ سے شاٹ بنارہا تھا لیکن جونہی وہ تیزی سے بھاگا اس مقام پر تعینات ایک امریکی فوجی کو اس نے چیختے ہوئے سنا، 'اس آدمی کو پکڑو۔'
( اس رپورٹ میں شامل معلومات اے پی سے لی گئی ہیں۔)