اسلام آباد —
افغانستان میں امریکی فوج نے ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی ان خبروں کی تردید کی ہے جن میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے اپنا زائد فوجی سازو سامان پاکستان کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایک بیان میں کہا گیا کہ امریکہ افغانستان سے پاکستان کو کسی بھی قسم کا عسکری سازو سامان ’’نا تو فراہم کر رہا ہے اور نا ہی ایسا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔‘‘
رواں ماہ کے اوائل میں امریکہ کے موقر اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ پینٹاگون پاکستان کو 7 ارب ڈالر مالیت کا فوجی سامان، جس میں بکتر بند گاڑیا ں بھی شامل ہیں، دے سکتا ہے۔ کیوں کہ افغانستان سے انخلا سے قبل امریکہ عسکری سامان ٹھکانے لگانا چاہتا ہے۔
اخبار کے مطابق پاکستانی عہدیدار اس فوجی سازو سامان کے بارے میں سوچ رہے ہیں، جو امریکہ افغانستان میں اس لیے چھوڑ کر جانا چاہتا ہے کیونکہ وہ اس کو واپس لے جانے کے لیے پیسے خرچ نہیں کرنا چاہتا۔
تجزیہ کار لفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تناظر میں پاکستان ضرور چاہے گا کہ وہ یہ فوجی سازوسامان حاصل کرے۔
’’امریکہ کے لیے یہ سامان کوئی خاص معنی نہیں رکھتا، جو تھوڑا بہت (عسکری) سامان وہ وہاں افغانستان میں چھوڑنا چاہا رہا ہے اور جو واپس لے جانا چاہتا ہے اگر وہ یہ پاکستان کے لیے چھوڑ جائے تو یہ ایک مثبت پیغام بھی ہو گا۔‘‘
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین شیخ روحیل اصغر کہتے ہیں کہ اگر امریکہ یہ سامان فروخت کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے تو پاکستان اس کا جائزہ لے کر خریدنے پر غور کر سکتا ہے۔
’’اس کی منتقلی پر تو خرچ اُٹھیں گے، دیکھنے میں یہ تو آیا ہے کہ یا تو وہ تلف کر دیتے ہیں یا پھر اونے پونے بیچ کر چلے جاتے ہیں۔۔۔۔۔ میرے خیال میں اُن کے لیے یہ بات بہتر رہے گی اور پاکستان کی ضرورت ہے تو یہ پاکستان کے لیے اچھا رہے گا۔‘‘
افغانستان میں بین الاقوامی اتحادی افواج کے کمانڈر جنرل جوزف ڈنفورڈ نے جمعرات کو اپنے بیان میں کہا کہ امریکہ افغان عوام اور اس کی سکیورٹی فورسز کا ساتھ دینے کے ’’غیر متزلزل‘‘ عزم پر قائم ہے۔
امریکی فوج کا کہنا ہے کہ گزشتہ 12 سال کے دوران افغانستان کی نیشنل سیکورٹی فورسز کو 53 ارب ڈالر کی امداد اور سامان مل چکا ہے، جس میں 160 طیارے، ایک لاکھ گاڑیاں، پانچ لاکھ ہتھیار اور دو لاکھ مواصلاتی و رات کی تاریکی میں کام آنے والے آلات شامل ہیں۔
امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ افغانستان کو مزید امداد بھی دی جا رہی ہے۔
افغانستان میں تعینات بین الاقوامی اتحادی افواج نے رواں سال کے اواخر میں افغانستان سے انخلا کا اعلان کر رکھا ہے۔
2014 کے بعد افغانستان میں محدود تعداد میں فوجیوں کی موجودگی سے متعلق امریکہ اور افغان حکومت کے درمیان دوطرفہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط ہونا ابھی باقی ہیں
افغانستان کا لویا جرگہ اگرچہ امریکہ سے سکیورٹی معاہدے کی منظوری دے چکا ہے لیکن صدر کرزئی نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس کا فیصلہ نئے افغان صدر ہی کریں گے۔
افغانستان میں پانچ اپریل کو صدارتی انتخابات ہونے ہیں۔
ایک بیان میں کہا گیا کہ امریکہ افغانستان سے پاکستان کو کسی بھی قسم کا عسکری سازو سامان ’’نا تو فراہم کر رہا ہے اور نا ہی ایسا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔‘‘
رواں ماہ کے اوائل میں امریکہ کے موقر اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ پینٹاگون پاکستان کو 7 ارب ڈالر مالیت کا فوجی سامان، جس میں بکتر بند گاڑیا ں بھی شامل ہیں، دے سکتا ہے۔ کیوں کہ افغانستان سے انخلا سے قبل امریکہ عسکری سامان ٹھکانے لگانا چاہتا ہے۔
اخبار کے مطابق پاکستانی عہدیدار اس فوجی سازو سامان کے بارے میں سوچ رہے ہیں، جو امریکہ افغانستان میں اس لیے چھوڑ کر جانا چاہتا ہے کیونکہ وہ اس کو واپس لے جانے کے لیے پیسے خرچ نہیں کرنا چاہتا۔
تجزیہ کار لفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تناظر میں پاکستان ضرور چاہے گا کہ وہ یہ فوجی سازوسامان حاصل کرے۔
’’امریکہ کے لیے یہ سامان کوئی خاص معنی نہیں رکھتا، جو تھوڑا بہت (عسکری) سامان وہ وہاں افغانستان میں چھوڑنا چاہا رہا ہے اور جو واپس لے جانا چاہتا ہے اگر وہ یہ پاکستان کے لیے چھوڑ جائے تو یہ ایک مثبت پیغام بھی ہو گا۔‘‘
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین شیخ روحیل اصغر کہتے ہیں کہ اگر امریکہ یہ سامان فروخت کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے تو پاکستان اس کا جائزہ لے کر خریدنے پر غور کر سکتا ہے۔
’’اس کی منتقلی پر تو خرچ اُٹھیں گے، دیکھنے میں یہ تو آیا ہے کہ یا تو وہ تلف کر دیتے ہیں یا پھر اونے پونے بیچ کر چلے جاتے ہیں۔۔۔۔۔ میرے خیال میں اُن کے لیے یہ بات بہتر رہے گی اور پاکستان کی ضرورت ہے تو یہ پاکستان کے لیے اچھا رہے گا۔‘‘
افغانستان میں بین الاقوامی اتحادی افواج کے کمانڈر جنرل جوزف ڈنفورڈ نے جمعرات کو اپنے بیان میں کہا کہ امریکہ افغان عوام اور اس کی سکیورٹی فورسز کا ساتھ دینے کے ’’غیر متزلزل‘‘ عزم پر قائم ہے۔
امریکی فوج کا کہنا ہے کہ گزشتہ 12 سال کے دوران افغانستان کی نیشنل سیکورٹی فورسز کو 53 ارب ڈالر کی امداد اور سامان مل چکا ہے، جس میں 160 طیارے، ایک لاکھ گاڑیاں، پانچ لاکھ ہتھیار اور دو لاکھ مواصلاتی و رات کی تاریکی میں کام آنے والے آلات شامل ہیں۔
امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ افغانستان کو مزید امداد بھی دی جا رہی ہے۔
افغانستان میں تعینات بین الاقوامی اتحادی افواج نے رواں سال کے اواخر میں افغانستان سے انخلا کا اعلان کر رکھا ہے۔
2014 کے بعد افغانستان میں محدود تعداد میں فوجیوں کی موجودگی سے متعلق امریکہ اور افغان حکومت کے درمیان دوطرفہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط ہونا ابھی باقی ہیں
افغانستان کا لویا جرگہ اگرچہ امریکہ سے سکیورٹی معاہدے کی منظوری دے چکا ہے لیکن صدر کرزئی نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس کا فیصلہ نئے افغان صدر ہی کریں گے۔
افغانستان میں پانچ اپریل کو صدارتی انتخابات ہونے ہیں۔