امریکہ میں کرٹ لینڈ فضائی اڈے میں واقع سنڈیا نیشنل لیبارٹری میں جوہری ہتھیاروں کے سازو سامان پر کام کیا جا رہا ہے تاکہ امریکی فوج کے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کو جدید بنایا جا سکے۔
منگل کو فضائی اڈے پر فوجیوں سے بات کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر کا کہنا تھا کہ جوہری مشن "امریکی سلامتی کا بنیادی جز" ہے۔
امریکہ کسی بھی جوہری حملے کا تین طریقوں سے دفاع کر سکتا ہے۔ زمین پر بین البراعظمی بیلسٹک میزائلوں کے ذریعے، فضا میں لڑاکا طیاروں پر رکھے جوہری بمبوں سے اور سمندر میں جوہری صلاحیت کے حامل میزائلوں سے لیس اپنی آبدوزوں کے ذریعے۔
لیکن یہ تمام پروگرامز ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں انھیں جدید بنانے کی ضرورت ہے۔
آخری مرتبہ جوہری بم بی 52 ایچ لے جانے والے بمبار طیارے کی تیاری کو 1952ء میں بند کر دیا گیا۔ سنڈیا میں تیار کیے گئے نئے بی 61-12 جوہری بم میں بھی ٹیوب ٹیکنالوجی کو تبدیل کیا جا رہا ہے لیکن یہ 2020ء تک ہی تیار ہو سکیں گے۔
امریکہ کے سابق نائب وزیر برائے سکیورٹی، سائنس و ٹیکنالوجی اور انٹرنیشنل پلاننگ سروسز کے موجودہ سربراہ ولیم شنائڈر کہتے ہیں کہ بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کا نظام 1970ء کی دہائی میں تیار کیا گیا تھا جسے اب مکمل تبدیلی کی ضرورت ہے۔
جوہری ہتھیاروں کی حامل اوہائیو کلاس آبدوز کی عمر کو 30 سال سے بڑھا کر 42 سال تو کر دیا گیا لیکن یہ عمر بھی آئندہ دہائی میں پوری ہونے والی ہے۔
سالوں تک اس جانب خاص توجہ اور مناسب بجٹ فراہم نہ کیے جانے سے ایسے سوالات نے جنم لیا ہے کہ اگر اس طرف مزید توجہ نہ دی گئی تو امریکہ کے یہ خطرناک ترین ہتھیار کس حد تک محفوظ اور قابل بھروسہ ہوں گے۔
حال ہی میں جوہری سلامتی کے لیے توانائی کے نائب وزیر فرینک کلوٹز نے کہا تھا کہ "اگر ہم نے ایک محفوظ اور موثر فورس کو برقرار رکھنا ہے تو ہمیں اس موجودہ نظام کو تبدیل کرنا ہوگا اور اپنے جوہری ہتھیاروں کی عمر کو بھی بڑھانا ہو گا۔"
کرٹ لینڈ فضائی اڈے پر ایش کارٹر نے بھی جوہری ہتھیاروں کے حامل تینوں دفاعی شعبوں کو جدید بنانے کا تذکرہ تو کیا لیکن ان کے بقول کئی برسوں تک عراق اور افغانستان میں امریکہ کے جنگوں میں مصروف رہنے کی وجہ سے اس بابت تاخیر ہوئی۔