گزشتہ تین سال کے عرصے میں صدر اوباما اور وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے درمیان اب تک جتنی بھی میٹنگیں ہوئی ہیں، شاید پیر کے روز وائٹ ہاؤس میں جوملاقات ہونے والی ہے، وہ ان میں اہم ترین ہوگی۔ ان کے سامنے بہت سے سوالات ہوں گے: اب جب کہ ایران پر عائد پابندیوں کے اقتصادی اور دوسرے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں، کیا اسرائیل اس اقتصادی دباؤ اور سفارتکاری کو پوری طرح اثر انداز ہونے کے لیے مزید وقت دینے پر آمادہ ہو گا؟
اگر اسرائیل ایران پر حملہ کر دیتا ہے، تو یہ اقدام، امریکی امداد کے ساتھ یا اس کے بغیر، ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو سست کرنے میں کس حد تک موئثر ثابت ہوگا ؟ اس قسم کے تصادم سے جو منفی اثرات مرتب ہوں گے، دنیا ان سے کس طرح نمٹے گی؟
جمعے کے روز دی اٹلانٹک کے جیفری گولڈ برگ کے ساتھ انٹرویو میں، صدر اوباما نے اسرائیل کی طرف سے عجلت میں کیے جانے والے اقدام کے بارے میں خبردار کیا۔ انھوں نے کہا کہ اس طرح ایران کو یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ اسے جارحیت کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔
لیکن انھوں نے کہا کہ ان کے خیال میں اسرائیلی حکومت اس بات کو سمجھتی ہے کہ جہاں تک ان کے اس عزم کا تعلق ہے کہ ایران کو نیوکلیئر اسلحہ حاصل کرنے سے روکا جائے، امریکہ کے صدر کی حیثیت سے میں کوئی ایسی بات نہیں کہتا جس پر عمل کرنے کا ارادہ نہ ہو۔ انھوں نے یہ بات دہرائی کہ انھوں نے اپنے لیے تمام راستے کھلے رکھے ہیں۔
کالن کاہل جارج ٹاؤن یونیورسٹی اسکول آف فارن سروس میں پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل اپنی سلامتی کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا لیکن اسے امریکی مفادات کو پہنچنے والی ضرب کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا۔ اس میں ایرانی کی طرف سے ممکنہ جوابی اقدام، اور تیل کی قیمت، اور امریکہ کے ایک اور جنگ میں گھسیٹے جانے کا خطرہ شامل ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اتحاد دو فریقوں کے درمیان ہوتا ہے۔ ہم اسرائیلیوں سے یہ نہیں کہیں گے کہ انہیں کیا کرنا ہے، لیکن ہم یہ امید ضرور کریں گے کہ اسرائیلی ان اثرات کو ذہن میں رکھیں گے جو ان کے اقدامات سے ، ان کے سب سے قریبی اتحادی، امریکہ کے مفادات پر پڑ سکتے ہیں۔ انہیں یہ فیصلہ کرتے وقت کہ جنگ شروع کی جائے یا نہیں، جنگ کی قیمت اور اس کے فوائد کا حساب کرتے وقت، اس چیز پر غور کرنا ہوگا۔‘‘
وائٹ ہاؤس نے ایران کے مالیاتی اور توانائی کے شعبوں کے خلاف انتہائی سخت پابندیوں پر عمل درآمد کے لیے عالمی حمایت حاصل کرنے میں کامیابی پر زور دیتے ہوئے اپنے الفاظ کا انتخاب بڑی احتیاط سے کیا ہے اور اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کے حل کے لیے زیادہ وقت اور جگہ فراہم کی جائے۔
جمعے کے روز، کینیڈا کے شہر اوٹاوہ میں نیتن یاہو نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو اس جال میں نہیں پھنسنا چاہیئے کہ ایران کو مذاکرات کے لیے زیادہ وقت دے دیا جائے کیوں کہ وہ اس وقت کو اپنے نیوکلیئر پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرے گا۔
گزشتہ ہفتے، امریکہ کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئر مین، فوج کے جنرل مارٹن دیمپسی نے، جو جنوری میں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے، امریکی قانون سازوں کو بتایا کہ انھوں نے اسرائیلی لیڈروں پر زور دیا کہ وہ اور زیادہ وقت دیں، لیکن انھوں نے یہ بھی کہا کہ فوجی طاقت کے استعمال کی راہ اب بھی کھلی ہے ۔ ان کے مطابق ’’ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ کس قسم کے عالمی دباؤ سے ، اور اس میں جب کبھی ضروری ہو، طاقت کا استعمال بھی شامل ہے، ایران کی حکومت کو اس کے نیوکلیئر اسلحہ حاصل کرنے کے عزائم سے باز رکھا جا سکتا ہے۔‘‘
رانڈ کارپوریشن کی ڈالیا داسا کے بتاتی ہیں کہ امریکہ کے سامنے اصل مسئلہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’مشکل یہ ہے کہ امریکہ چاہے اسرائیلی حملے میں شامل ہو یا نہ ہو، ایک بار اسرائیل نے حملہ کر دیا، تو علاقے میں عام طور سے یہی سمجھا جائے گا کہ امریکہ اس حملے میں ملوث ہے۔
اوباما اور نیتن یاہو کے مذاکرات سے پہلے جو اسرائیلی عہدے دار واشنگٹن میں موجود ہیں ان میں وزیرِ دفاع ایہود براک شامل ہیں۔ وہ ان لوگوںمیں شامل ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ اسرائیل کو ایران کے اس مرحلے پر پہنچنے سے پہلے کارروائی کرنی پڑے جب اس کی نیوکلیئر تنصیبات کو پیشگی حملے کے ذریعے تباہ کرنا ممکن نہیں رہے گا۔
روز اخبار نیو یارک ٹائمز میں اسرائیل کی انٹیلی جینس کے ایک سابق سربراہ، اموس یادلن کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے صدر اوباما پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کو اس بات کی پکی یقین دہانی فراہم کریں کہ اگر وہ اس وقت دستیاب موقع سے فائدہ نہیں اٹھاتا اور ایران پر حملہ نہیں کرتا، اور تمام دوسرے متبادل طریقے ناکام ہو جاتے ہیں، تو امریکہ ایران کو نیوکلیئر اسلحہ کے حصول سے روکنے کے لیے کارروائی کرے گا۔