واشنگٹن —
صدارت کا انتخاب دوبارہ جیتنے کے بعد، صدر اوباما 17 نومبر، ہفتے کے روز، سے جنوب مشرقی ایشیا کے دورے پر روانہ ہو رہے ہیں۔ اس دورے میں برما اور کمبوڈیا کے ملک بھی شامل ہوں گے۔ کسی بھی امریکی صدر کا ان دونوں ملکوں کا یہ پہلا دورہ ہو گا۔
مسٹر اوباما جنوب مشرقی ایشیا میں امریکہ کے اہم اقتصادی، سکیورٹی اور جمہوریت کے مفادات پر توجہ دیں گے۔
بنکاک میں وہ وزیرِ اعظم یِنگلک شیناواٹرا سے ملیں گے اور امریکہ اور تھائی لینڈ کے دو طرفہ تعلقات اور دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان روابط پر زور دیں گے۔
پیر کے روز، مسٹر اوباما برما جائیں گے اور یوں وہ اپنے عہد ِ صدارت کے دوران برما کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی صدر بن جائیں گے۔ برما پر کئی عشروں سے فوج کی حکومت رہی ہے۔
حزبِ اختلاف کی لیڈر اور نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی ستمبر میں مسٹر اوباما سے وائٹ ہاؤس میں ملی تھیں۔ رنگون میں ان کے گھر پر ان دونوں کی پھر ملاقات ہو گی۔
امریکہ نے برما کے خلاف پابندیاں نرم کر دی ہیں اور وہ ملک کے جمہوری عمل کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے جو ابھی خاصا کمزور ہے۔
آنگ سان سوچی نے وائس آف امریکہ سے کہا کہ مزید اصلاحات کا انحصار اس بات پر ہے کہ فوج ان کی حمایت کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’جب تک فوج کھل کر اور باقاعدگی سے جمہوری عمل کی حمایت نہ کرے، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم پھر پرانی ڈگر پر واپس نہیں جائیں گے۔‘‘
اوباما انتظامیہ نے کہا ہے کہ برما میں پیش رفت کے بارے میں اس کے اندازے حقیقت پسندی پر مبنی ہیں۔ محکمۂ خارجہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری کرٹ کیمبل کہتے ہیں کہ ’’اصلاحات کے ابتدائی دور کے حالات میں اور حقیقت میں ہمیشہ فرق ہوتا ہے۔ امیدیں زیادہ ہوتی ہیں، اور حالات کی وجہ سے کامیابیاں کم ہوتی ہیں۔‘‘
مسٹر اوباما کے اس علاقائی دورے کی آخری منزل کمبوڈیا ہے جو مشرقی ایشیا کے سربراہوں کی کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے۔
سی آئی اے میں چین کے امور کے سابق تجزیہ کار کرس جانسن کہتے ہیں کہ ساؤتھ چائنا سی کے معاملے میں کشیدگی جو اس سال کے شروع میں بیجنگ کے دباؤ کی وجہ سے اور زیادہ شدید ہو گئی تھی، اس میٹنگ کا ایک اہم موضوع ہو گی۔ ان کے مطابق ’’ایسا لگتا تھا کہ چین یہ بات سمجھنے کو تیار نہیں ہے کہ نہ صرف آسیان پر بلکہ اور زیادہ وسیع پیمانے پر اس پالیسی کے کتنے منفی اثرات پڑیں گے۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ حالیہ انتخاب میں کامیابی کی وجہ سے، مسٹر اوباما کے سیاسی اثر و رسوخ میں اضافہ ہو گیا ہے۔
واشنگٹن میں قائم سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے مائیکل گرین کہتے ہیں کہ اس سے ایشیا میں امریکہ کے بڑھتے ہوئے رول کی وضاحت کا موقع ملا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اور آپ کے خیال میں جمہوری محاذ پر ہمیں کمبوڈیا اور برما جیسے ملکوں کے بارے میں کیا کرنا چاہیئے ؟ ایشیا کے بارے میں امریکہ کے اسٹریٹجک اور اقتصادی مفادات کی وضاحت کے سلسلے میں ہمیں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اب تک اس معاملے میں کچھ نہیں کیا گیا ہے۔‘‘
اس بات کا امکان ہے کہ علاقے کے لیڈر صدر اوباما سے اس فسکل کلف کے بارے میں سوالات کریں گے جس کا امریکہ کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
فسکل کلف ایک نئی اصطلاح ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر دونوں پارٹیوں کے درمیان کوئی سمجھوتہ نہیں ہوتا تو 2013ء کے شروع سے بجٹ کے خسارے کو کم کرنے کے لیے ٹیکسوں میں اضافہ ہو جائے گا اور سرکاری اخراجات کم کرنے پڑیں گے۔ شاید صدر اوباما سے یہ بھی پوچھا جائے کہ وہ وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن کی جگہ جو اوباما کی صدارت کی پہلی مدت میں، امریکہ اور ایشیا کی سفارتکاری میں بہت سرگرم رہی ہیں، کس کا تقرر کریں گے۔
مسٹر اوباما جنوب مشرقی ایشیا میں امریکہ کے اہم اقتصادی، سکیورٹی اور جمہوریت کے مفادات پر توجہ دیں گے۔
بنکاک میں وہ وزیرِ اعظم یِنگلک شیناواٹرا سے ملیں گے اور امریکہ اور تھائی لینڈ کے دو طرفہ تعلقات اور دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان روابط پر زور دیں گے۔
پیر کے روز، مسٹر اوباما برما جائیں گے اور یوں وہ اپنے عہد ِ صدارت کے دوران برما کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی صدر بن جائیں گے۔ برما پر کئی عشروں سے فوج کی حکومت رہی ہے۔
حزبِ اختلاف کی لیڈر اور نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی ستمبر میں مسٹر اوباما سے وائٹ ہاؤس میں ملی تھیں۔ رنگون میں ان کے گھر پر ان دونوں کی پھر ملاقات ہو گی۔
امریکہ نے برما کے خلاف پابندیاں نرم کر دی ہیں اور وہ ملک کے جمہوری عمل کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے جو ابھی خاصا کمزور ہے۔
آنگ سان سوچی نے وائس آف امریکہ سے کہا کہ مزید اصلاحات کا انحصار اس بات پر ہے کہ فوج ان کی حمایت کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’جب تک فوج کھل کر اور باقاعدگی سے جمہوری عمل کی حمایت نہ کرے، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم پھر پرانی ڈگر پر واپس نہیں جائیں گے۔‘‘
اوباما انتظامیہ نے کہا ہے کہ برما میں پیش رفت کے بارے میں اس کے اندازے حقیقت پسندی پر مبنی ہیں۔ محکمۂ خارجہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری کرٹ کیمبل کہتے ہیں کہ ’’اصلاحات کے ابتدائی دور کے حالات میں اور حقیقت میں ہمیشہ فرق ہوتا ہے۔ امیدیں زیادہ ہوتی ہیں، اور حالات کی وجہ سے کامیابیاں کم ہوتی ہیں۔‘‘
مسٹر اوباما کے اس علاقائی دورے کی آخری منزل کمبوڈیا ہے جو مشرقی ایشیا کے سربراہوں کی کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے۔
سی آئی اے میں چین کے امور کے سابق تجزیہ کار کرس جانسن کہتے ہیں کہ ساؤتھ چائنا سی کے معاملے میں کشیدگی جو اس سال کے شروع میں بیجنگ کے دباؤ کی وجہ سے اور زیادہ شدید ہو گئی تھی، اس میٹنگ کا ایک اہم موضوع ہو گی۔ ان کے مطابق ’’ایسا لگتا تھا کہ چین یہ بات سمجھنے کو تیار نہیں ہے کہ نہ صرف آسیان پر بلکہ اور زیادہ وسیع پیمانے پر اس پالیسی کے کتنے منفی اثرات پڑیں گے۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ حالیہ انتخاب میں کامیابی کی وجہ سے، مسٹر اوباما کے سیاسی اثر و رسوخ میں اضافہ ہو گیا ہے۔
واشنگٹن میں قائم سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے مائیکل گرین کہتے ہیں کہ اس سے ایشیا میں امریکہ کے بڑھتے ہوئے رول کی وضاحت کا موقع ملا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اور آپ کے خیال میں جمہوری محاذ پر ہمیں کمبوڈیا اور برما جیسے ملکوں کے بارے میں کیا کرنا چاہیئے ؟ ایشیا کے بارے میں امریکہ کے اسٹریٹجک اور اقتصادی مفادات کی وضاحت کے سلسلے میں ہمیں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اب تک اس معاملے میں کچھ نہیں کیا گیا ہے۔‘‘
اس بات کا امکان ہے کہ علاقے کے لیڈر صدر اوباما سے اس فسکل کلف کے بارے میں سوالات کریں گے جس کا امریکہ کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
فسکل کلف ایک نئی اصطلاح ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر دونوں پارٹیوں کے درمیان کوئی سمجھوتہ نہیں ہوتا تو 2013ء کے شروع سے بجٹ کے خسارے کو کم کرنے کے لیے ٹیکسوں میں اضافہ ہو جائے گا اور سرکاری اخراجات کم کرنے پڑیں گے۔ شاید صدر اوباما سے یہ بھی پوچھا جائے کہ وہ وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن کی جگہ جو اوباما کی صدارت کی پہلی مدت میں، امریکہ اور ایشیا کی سفارتکاری میں بہت سرگرم رہی ہیں، کس کا تقرر کریں گے۔