محکمہ خارجہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری ڈینیئل رسل نے جمعرات کو کہا کہ امریکہ بحیرہ جنوبی چین میں چین کی طرف سے تعمیر کے کام سے پریشان ہے۔
’’علاقے کی بحالی میں چین کے رہنما خطوط ناصرف ہمارے لیے بلکہ علاقے میں دیگر ملکوں کے لیے بھی پریشان کن ہیں۔‘‘
رسل نے کہا کہ چین کے مجوزہ منصوبے آئندہ ہفتے واشنگٹن میں ہونے والے امریکہ چین اسٹریٹجک و اقتصادی مذاکرات کا حصہ ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ نہ زمین کی بحالی کے بارے میں چین کے حالیہ بیان اور نہ ہی اس کے رویے سے علاقائی تناؤ میں کمی ہوئی ہے، ’’جو ہم سب چاہتے ہیں۔‘‘
’’سچ کہوں تو یہ معاملہ چین اور بین الاقوامی قانون کے مابین ہے۔‘‘
رسل نے کہا کہ صدر اوباما کی انتظامیہ چین کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل نکالنے کے لیے پرعزم ہے۔
’’امریکہ کی طرف سے فوجی محاذ آرائی سے بچنے کا عزم غیر متزلزل ہے، جس میں چین بھی شامل ہے۔ یہ کسی کے مفاد میں نہیں۔‘‘
اس ہفتے کے اوائل میں چین نے اعلان کیا تھا کہ وہ بحیرہ جنوبی چین کے کچھ متنازع علاقوں میں تعمیراتی کام کو جلد مکمل کر لے گا، مگر اس نے اس عزم کا بھی اظہار کیا تھا کہ وہ ان متنازع جزیروں پر تعمیراتی کام کو جاری رکھے گا جو ان پر ملکیت کا دعویٰ رکھنے والے دوسرے ممالک کے ساتھ کشیدگی کا باعث ہے۔
چینی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک مختصر بیان میں زمین کی بحالی کے کام کے بارے میں کہا گیا تھا کہ یہ کسی طور بھی ’’قابل اعتراض نہیں‘‘ اور اس کے مقاصد فوجی نہیں بلکہ غیر فوجی ہیں۔
تاہم اب امریکہ چین کے جزائر کی تعمیرات کے منصبوبے کی کھل کر مخالفت کر رہا ہے جس کے بارے میں اب اس کا کہنا ہے کہ ایک اہم آبی گزرگاہ پر واقع غیرآباد چٹانوں والے علاقے کے 2,000 ایکڑ سے زائد رقبے کو جزیرے میں تبدیل کیا جا چکا ہے۔
چین کے ساتھ مذاکرات میں سائبر مسائل پر بھی بات چیت ہو گی۔
رسل نے کہا کہ امریکہ اور چین ’’انٹرنیٹ کے دو سب سے بڑے صارفین ہیں۔ ہمارے کاروبار، ہماری تنظیمیں، اور ہمارے لوگ خطرے سے دوچار ہیں۔‘‘
سائبر معاملات آئندہ ہفتے ہوتے والے مذاکرات کا اہم حصہ ہوں گے۔ امریکہ اور چین نے ایک سائبر سکیورٹی گروپ قائم کر رکھا ہے۔ مگر امریکی حکام کی جانب سے مئی 2014ء میں چینی فوج کے پانچ اہلکاروں کے خلاف ہیکنگ کا الزام عائد ہونے کے بعد چین اس گروپ سے نکل گیا تھا۔ چین نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔