رسائی کے لنکس

پاکستان امریکہ—دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں: تجزیہ کار


پاکستان امریکہ—دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں: تجزیہ کار
پاکستان امریکہ—دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں: تجزیہ کار

’تعلقات اب بہت نچلی سطح پر آگئے ہیں اور جو باتیں پہلے نجی طور پر کہی جاتی تھیں، اب برسرِ عام کہی جارہی ہیں‘

حقانی نیٹ ورک اور اُس کی کارروائیوں کے حوالے سے امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں نئی کشیدگی کے بارے میں امریکی ماہرین ڈاکٹر مارون وائن بام اور ڈاکٹر والٹر اینڈرسن کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور آخرِ کار اُن کو اِس کا ادراک کرنا ہوگا۔

جمعے کو ڈاکٹر مارون وائن بام نے ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تعلقات اب بہت نچلی سطح پر آگئے ہیں اور جو باتیں پہلے نجی طور پر کہی جاتی تھیں، اب برسرِ عام کہی جارہی ہیں۔

اِس سوال کے جواب میں کہ پاکستان اِن الزامات کی تردید کرتا ہے جب کہ امریکا کا اصرار ہے کہ اُس کے حقانی نیٹ ورک سے رابطے ہیں، اُنھوں نے کہا کہ یہ بڑے سنگین الزامات ہیں اور وہ نہیں سمجھتے کہ ایڈمرل مائیک ملن اور لیون پنیٹا نے جس طرح یہ باتیں برسر عام کی ہیں، اگر اُن کے پاس اور یہاں کی انٹیلی جنس کمیونٹی کے پاس جسے وہ انتہائی قابلِ بھروسہ ثبوت سمجھتے ہیں نہ ہوتا تو وہ ایسی باتیں کرتے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اگر پہلے دباؤ ڈال کر اور سمجھا کر حالات کو قابو میں کیا گیا ، لیکن پھر اُنھیں احساس ہوا کہ اب پرانے طریقوں سے کام نہیں چلے گا۔ اِس لیے یہ کچھ کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور یہ کہ اب کانگریس کی جانب سے بھی اِس سلسلے میں خاصا دباؤ ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے مستقبل کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں اُنھوں نے کہا کہ ’میں باور کرتا ہوں کہ آخر میں عقل و دانش ہی کو کامیابی حاصل ہوگی‘۔

جب پوچھا گیا کہ کیا وہ خطے میں نئی حقیقتیں دیکھ رہے ہیں، تو اُن کا جواب تھا کہ سوائے ایک صورت کے، میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں دیکھ رہا اور وہ صورت یہ ہے جس کے بارے میں لوگوں کو تشویش ہے کہ اگر امریکہ کے اندر کوئی بڑا حملہ ہوتا ہے اور بڑے پیمانے پر ہلاکتیں بھی ہوتی ہیں اور ماضی کی طرح جس کے سلسلے پاکستان اور فرنٹیئر سے جا ملتے ہیں تو اُس کے جواب میں فوجی نوعیت کی کارروائی کی جاسکتی ہے۔

جب پوچھا گیا کہ کیا اُن کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی ہوسکتی ہے، تو اُنھوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ واقعی نہیں جانتے کہ کیا ہوگا۔ ’اِس وقت تو صرف دھمکیاں ہیں، اور میں یہی سوچنا پسند کروں گا، کہ ایسا صرف پاکستان کی حکومت اور فوج کو توجہ دلانے کے لیے کیا جارہا ہے‘۔

جان ہاپکنز یونی ورسٹی میں جنوب ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر ڈاکٹر والٹر اینڈرسن نے دونوں ملکوں کے تعلقات کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ، ’ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ آپ حقانی نیٹ ورک اور گذشتہ دِنوں میں اُس کی کارروائیوں کے بارے میں جِن کے نتیجے میں امریکی فوجیوں کی ہلاکتیں ہوئیں اور کابل کے امریکی سفارت خانے پر حملہ ہوا اور حقانی نیٹ ورک کےلیے پاکستان کی مدد کے بارے میں منفی ریمارکس سن رہے ہیں اور صورتِ حال ایک ایسی سمت جارہی ہے جہاں بہت احتیاط کی ضرورت ہے‘۔

جب اُن سے سوال کیا گیا کہ کیا موجودہ صورتِ حال میں پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات مزید نہیں اُبھریں گے، تو اُن کا جواب تھا ، ’وہاں امریکہ مخالف جذبات پہلے ہی بہت زیادہ ہیں۔ اِس وقت اعلیٰ عہدے داروں کا تخاطب بطورِ مجموعی، پاکستانیوں سے نہیں بلکہ، پاکستانی عہدے داروں خاص طور سے فوج کے عہدے داروں سے ہے اور اس کے لیے جواز یہ ہے کہ سکیورٹی سے متعلق مسائل کا تعلق فوج سے ہے‘۔

پاکستان اور امریکہ کے درمیان مستقبل میں تعلقات کےبارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ یہ ایسے ہی ملے جلے رہیں گے جیسے ماضی میں رہے ہیں اور یہ کہ پاکستان کو اپنی سکیورٹی کے بارے میں سنجیدہ تشویش ہے۔ اور اُن کے خیال میں امریکہ اس بات کو ترجیح دیگا کہ وہ بیٹھ کر ایک دوسرے سے بات کریں۔

اِسی اثنا میں، ’امریکن فارین پالیسی کونسل‘ سےوابستہ تجزیہ کار جیف اسمتھ نے’وائس آف امریکہ‘ کے پروگرام ’اِن دِی نیوز‘ میں اسد حسن کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ ایڈمرل مائیک ملن کا بیان واضح کرتا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات فیصلہ کُن موڑ پر پہنچ گئے ہیں۔اور ایسے میں اگر پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی نہیں کرتا تو وزیر دفاع لیون پنیٹا کے بقول، امریکہ خود کارروائی کر سکتا ہے۔

جیف اسمتھ نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے اس بیان پر کہ امریکہ پاکستان کے بغیر نہیں رہ سکتا‘ کہا کہ ایسا کچھ پہلے واشنگٹن کے تھنک ٹینکس میں بھی مشہور تھا مگر ایڈمرل مائیک ملن کے واشگاف بیان کے بعد صورتِ حال پہلے جیسی نظر نہیں آتی۔ اب امریکہ پاکستان کے بغیر بھی رہ سکتا ہے اور ایسے آپشنز کے بارے میں سوچ سکتا ہے جن سے امریکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کے احتمال سے صرفِ نظر کر رہا تھا۔

جیف اسمتھ کا کہنا تھا کہ میں پاکستان کے علاقوں میں براہِ راست امریکہ فوجی کارروائی جیسی بات نہیں کہنا چاہتا، لیکن امریکی قیادت کی میز پر جو آپشنز اِس وقت موجود ہیں وہ اِس سے پہلے نہیں تھے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG