نیویارک ٹائمز
اخبار نیو یارک ٹائمز نے اپنے ایک اداریے میں امریکہ کے چئیر مین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائک ملن کی جانب سے پاکستان کی سراغرساں ایجنسی آئی ایس آئی پر کابل میں گزشتہ ہفتے امریکی سفارت خانے پر حملہ کرنےوالے شورش پسندوں کی مدد میں براہ راست کردار ادا کرنے اوراس سے قبل نیٹو کی ایک بیرونی چوکی پر ٹرک بم دھماکے کی منصوبہ بندی اور کارروائی کرنے والے دہشت گردوں کے حقانی نیٹ ورک کی مدد کے الزام اور اس پر پاکستان کی فوج کےغیر معذرت خواہانہ اور وزیر خارجہ کےانتباہی رد عمل کو موضوع بنایا ہے ۔ اخبار لکھتا ہے کہ پنٹاگان توقع کرتا ہے کہ اس کھلم کھلا الزام سے پاکستان ، جوامریکہ سے اربوں ڈالر کی امداد لیتا ہے، اپنے رویے میں تبدیلی لائے گا۔ لیکن اخبار لکھتا ہے کہ ایسا اس کے بعد بھی نہیں ہوا، جب پاکستان کی فوج کی اعلی ترین اکیڈمی کے بالکل قریب اسامہ بن لادن کو روپوش پایا گیا تھا۔
آگے چل کر اپنے اداریے میں اخبار ایڈمرل مائیک ملن اور ان سب سے اتفاق کرتا ہے جن کا کہناہے کہ امریکہ کو پاکستان کے ساتھ کام کرنے کی کوشش جاری رکھنی چاہیے کیوں کہ امریکیوں کو پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے دونوں جانب القاعدہ اور طالبان فورسز تک رسائی اور زمینی انٹیلی جینس کی مدد سے ان کا پیچھا کرنے کے لیے پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے۔ جب کہ اسے افغانستان میں فوج کی رسدوں کی ترسیل کے لیے پاکستانی راستوں کی ضرورت ہے ۔ اور پھر یہ کہ پاکستان کو تنہا چھوڑ دینے سے جوہری ہتھیاروں سے مسلح یہ حکومت مزید غیر مستحکم ہو سکتی ہے، جس سے ایک انتہائی خوفناک صورتحال جنم لے سکتی ہے ۔ اس لیے اخبار مشورہ دیتا ہے کہ واشنگٹن کو پاکستان پر دباؤ جاری رکھنا چاہیے اور اسے یہ یاد دہانی کراتے رہنا چاہیے کہ انتہا پسندوں سے ان کے اپنے ملک کو بھی ایک مہلک خطرہ لاحق ہے ۔ اور امریکیوں کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کوئی جنگ چھیڑے بغیر جب کبھی اور جہاں کہیں ممکن ہو حقانیوں کا پیچھا کریں ۔
ڈیلی نیوز
اخبار ڈیلی نیوز نے اپنے ایک اداریے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی صدر محمود عباس اور اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کے خطاب کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مسٹر عباس نے کسی دیر پا امن معاہدے کی ثالثی کی بھر پور کوشش پر اپنی سطحی پبلک ریلیشنز کی بنیاد پر اقوام متحدہ میں کسی فلطینی ریاست کو تسلیم کرانے کی کوشش کی دھمکی کا انتخاب کیا ۔ اور اب جب کہ عالمی ادارہ ان کی درخواست پر غور کر رہاہے، فلسطینی صدر کو اس حقیقت کا سامنا کرنا ہو گا کہ فلسطینیوں کو مکمل طور پر تسلیم کیے جانے کا واحد راستہ پیشگی شرائط کے بغیر اسرائیل کے ساتھ براہ راست مذاکرات ہی ہیں ۔
اخبار لکھتا ہے کہ اگر امن وہی ہے جس کی مسٹر عباس کوشش کر رہے ہیں تو اس کے لیے سب سے پہلے سرحدوں اور یروشلم کی حیثیت کے تعین اور ایک یہودی ریاست کے طور پر اسرائیل کے وجود کی توثیق درکار ہو گی ۔ اور جب تک دونوں فریق یہ مرکزی اور اہم مسائل طے نہیں کرتے کوئی فلسطینی ریاست وجود میں نہیں آسکتی ۔ پھر یہ کہ اگر اور جب کبھی یہ مذاکرات دوبارہ شروع ہوں تو اسرائیل کی تین اہم ترین ترجیحات صرف اور صرف سیکیورٹی ہی ہوں گی ۔ جب کہ اخبار لکھتا ہے کہ اسرائیل کو ختم کرنے کی دھمکی پر فلسطینی دھڑے حماس کا فلسطینی سیاست میں عمل دخل جاری ہے۔ اور یہ سب وہ مسائل ہیں جنہیں مذاکرات کے بغیر طے نہیں کیاجا سکتا۔
آگے چل کر اپنے اداریے میں اخبار لکھتا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتین یاہو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں کہا کہ اسرائیل ایک فلسطینی ریاست کے ساتھ امن چاہتا ہے لیکن فلسطینی امن کے بغیر ایک ریاست چاہتے اور انہوں نے اعلان کیا کہ اسرائیل سابقہ تلخ تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے امن کی راہ میں تکلیف دہ مفاہمتوں کے لیے تیار ہے۔ اور اخبار لکھتا ہے کہ اگر فلسطینی راہنما صحیح معنوں میں امن بلکہ دائمی امن چا ہتے ہیں تو انہیں صرف اور صرف مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور وہ اس سلسلے میں وہ اسرائیل کو ایک رضامند ساتھی پائیں گے۔
وال سٹریٹ جرنل
اور اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے اپنے ایک اداریے میں امریکہ میں سوشل سیکیورٹی کے نظام کو درپیش مسائل کو موضوع بناتے ہوئے امریکی ریاست ٹیکساس کی تین کاؤنٹیز میں تین عشرے سے جاری سوشل سیکیورٹی کےایک متبادل نظام پر روشنی ڈالی ہے جس کی طرف ٹیکساس کے گورنررک پیری نے،جو ری پبلکن کی جانب سے صدارتی امیدوار بننا چاہتے ہیں، توجہ دلا تے ہوئے اسے ایک کامیاب اورایسا ماڈل نظام قرار دیا ہے، جسے امریکہ کی باقی سبھی ریاستوں کو اپناناچاہیے۔ لیکن یہ نظام دوسری ریاستوں میں اس لیے نہیں اپنایا جا سکتا کیونکہ امریکہ میں 1983 سے سوشل سیکیورٹی کے موجودہ نظام کے علاوہ کسی اور نظام کو اپنانے کی ممانعت ہے ۔
اخبار اس نظام کا باقی ریاستوں میں نافذ سوشل سیکیورٹی کے نظام سے موازنہ کرتے ہوئے اس کی بہت سی دوسری خوبیاں گنواتے ہوئے لکھتا ہے کہ اگر سوشل سیکیورٹی سسٹم کے تحت کسی ایک کم تر سطح کے متوسط کارکن کو اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد لگ بھگ 1007 ڈالر ماہانہ ملتے ہیں تو اس متبادل منصوبے کے تحت وہ 1826 ڈالر ماہانا وصول کرے گا۔ ایک درمیانی آمدنی والا کارکن سوشل سیکیورٹی کے تحت ا گر اپنی ریٹائر منٹ کے بعد 1540 ڈالر ماہانہ وصول کرے گا تو اس بنکنگ ماڈل سسٹم کے تحت وہ 3600 ڈالر ماہانہ وصول کرے گا۔اور ایک زیادہ آمدنی حاصل کرنے والا کارکن اپنی ریٹائرمنٹ پر تقریباً 2500 ڈالر ماہانہ جب کہ اس متبادل منصوبے کے تحت پانچ سے چھ ہزار ڈالر ماہانہ وصول ہوں گے۔
اخبار لکھتا ہے کہ اگر کانگریس اس شق کو منسوخ کر دے تو یہ منصوبہ سوشل سیکیورٹی کی قومی سطح پر اصلاح کےلیے ایک ماڈل ثابت ہو سکتا ہے کیوں کہ اس میںٕ سوشل سیکیورٹی کے تمام فوائد بھی شامل ہیں ہے اور یہ سوشل سیکورٹی کے پروگرام اور معیشت کو مفلوج کرنے والی ان ذمہ داریوں سے بھی بچا تا ہے جنکے لیے فنڈز دستیاب نہ ہوں۔
اخبار اپنا اداریہ سمیٹتے ہوئے لکھتا ہےکہ اگر صدر اوباما سمیت ، تمام صدارتی امیدوار یہ بحث ختم کردیں کہ کون سوشل سیکیورٹی کو بچانا اور کون اسے تباہ کرنا چاہتا ہے اور اس متبادل منصوبے کا جائزہ لیتے ہوئے، اصلاح پر تعمیری انداز سے بحث شروع کر دیں تو یہ سوشل سیکیورٹی کے مسئلے کے حل کا ایک مناسب آغاز ہو گا۔