دہشت گردی کے سنگین مسئلے سے دوچار پاکستان میں آج پھر پشاور کے جمرود رڈپرخوفناک دھماکا ہوا جس میں ایک شخص ہلاک اور دس افراد زخمی ہوگئے۔ ایس ایس پی آپریشنزپشاور اعجاز احمد خان کا کہنا ہے کہ دھماکے کا مقصد وہاں سےگزرنے والی امریکی قونصل خانے کی گاڑیوں اور اس میں سوار عملے کے دو ارکان کو نقصان پہنچانا تھا تاہم عملہ محفوظ رہا۔
اس سے قبل11مئی کو کراچی میں واقع سعودی قونصل خانے پر دستی بم سےحملہ اور 16مئی کو سفارتی اہلکار حسن القحطانی کی نامعلوم افراد کی فائرنگ میں ہلاکت سے ایسا لگتا ہے کہ گویا دہشت گردوں نے اسامہ بن لادن کی موت کے بعد اپنا طریقہ واردات یا 'حکمت عملی 'تبدیل کرلی ہے اور اب بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں مقیم غیر ملکی مشنز ، غیر ملکی شہریوں اور سفارتی اہلکاروں کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ طریقہ واردات میں تبدیلی اسامہ کی موت کے بدلے یا اسامہ کی موت پر دہشت گردوں کے اشتعال کو ظاہر کرتی ہے۔
نائن الیون کے بعد دنیا میں غیر ملکی شخصیات اور مغربی مفادات کومتعددمرتبہ نشانہ بنایا گیا۔بالی بم دھماکے ، سعودی شہروں دہران اور جدہ میں دہشت گردانہ کارروائیاں اور پے در پے کئی واقعات میں مغربی اور خصوصاً امریکی مفادات کو نشانہ بنانا اس وقت کا وطیرہ سا بنا گیا تھا ۔ پاکستان بھی اس لپیٹ میں آیا اور یہاں بھی متعدد واقعات میں غیرملکیوں کو نشانہ بنایا گیا۔
پاکستان میں غیر ملکیوں کو نقصان پہنچانا، انہیں اغوا کرنا، قتل کرنا اور دہشت گردی کا نشانہ بنانا نئی بات نہیں ہے ۔ تاریخ میں اس کی بہت سی مثالیں اور واقعات موجود ہیں کہ جب غیر ملکیوں کے خلاف کارروائیاں کی گئیں۔ساوٴتھ ایشیا ٹیررزم پورٹل کے مطابق ان میں سے کچھ اہم واقعات کی تفصیل درج ذیل ہے:
--23جنوری 2002ء کوکراچی میں امریکی صحافی ڈینیل پرل کو اغوا کرلیا گیا اور بعد ازاں قتل کردیا گیا جس کی باقاعدہ ویڈیو فلم بھی جاری کی گئی۔
--8مئی 2002ء کو کراچی کے شیرٹن ہوٹل کے باہر دھماکے میں 9 فرانسیسی انجینئرز کو ہلاک کردیا گیا جبکہ پانچ پاکستانی بھی ہلاک اور 51 زخمی ہوئے۔
--14جون 2002ء کو کراچی میں امریکی قونصلیٹ پرایک اور حملے میں پانچ خواتین سمیت دس افراد ہلاک اور 51 زخمی ہوگئے۔
--13جولائی 2002ء کومانسہرہ میں حملہ کرکے 12افراد کوہلاک اور 12 کو زخمی کردیا گیا۔ ان میں سات جرمن شہری بھی شامل تھے۔
--9اگست 2002ء کو مشن اسپتال ٹیکسلا پر حملے کے نتیجے میں تین غیر ملکی سیاحوں کو ہلاک کردیا گیا۔
--28فروری2003 کو ایک مرتبہ پھر امریکی قونصلیٹ کو نشانہ بنایا گیا ۔ اس حملے میں دو افراد ہلاک ،پانچ زخمی ہوئے۔
--تین مئی 2004ء کو گوادر میں حملے کے نتیجے میں تین چینی انجینئر ز ہلاک اور 9 چینی شہری زخمی ہوگئے ۔
--26مئی 2004ء کو پاکستان امریکن کلچرل سینٹر اور امریکی قونصلیٹ جنرل کی رہائش گاہ کو نشانہ بنایا گیا جس میں دو افراد ہلاک اور 33 زخمی ہوگئے۔
--15نومبر 2005ء کو امریکی فرنچائز ریسٹورنٹ کو نشانہ بنایا گیا جس میں تین افراد ہلاک اور 20 زخمی ہوگئے۔
--دو مارچ 2006ء کو امریکی قونصلیٹ کو نشانہ بنایا گیا جس میں ایک امریکی سفارتی اہلکار ڈیوڈ فائیف سمیت خودکش کار بم 14دھماکے میں 3 افراد ہلاک اور4 زخمی ہوگئے۔
--15مارچ 2008ء کو اسلام آباد کا اطالوی ریسٹورنٹ حملہ آوروں کا نشانہ بنا جن میں ایک ترک خاتون ہلاک جبکہ امریکی سفارتی اہلکار سمیت دیگر پندرہ غیر ملکی شہری زخمی ہوئے ۔
--دو جون 2008کو اسلام آباد کے ڈنمارک کے سفارت خانے کو نشانہ بنایا گیا ۔ یہ خود کش حملہ تھا جس میں آٹھ افراد ہلاک اور 30 زخمی ہوگئے۔
--26اگست 2008ء کو امریکی قونصلیٹ کی پرنسپل آفیسر کی گاڑی پر پشاور میں فائرنگ کردی گئی تاہم وہ حملے میں پوری طرح محفوظ رہیں۔
--28ستمبر2008ء کو ضلع اٹک پنجاب میں پولینڈ کے انجینئر کو فائرنگ کا نشانہ بنا کر دو گارڈز سمیت ہلاک کردیا گیا۔
--دو فروری 2009ء کو اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے پناہ گزین پر حملہ ہوا۔ہائی کمیشن کے ملازمین کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی تاہم حملے میں ان کا ڈرائیور ہلاک ہوگیا۔
--18اپریل 2010ءکو پشاور کے امریکی قونصلیٹ پر یکے بعد دیگرے تین بم دھماکے ہوئے جن میں 10 افراد ہلاک اور 18 زخمی ہوگئے۔
اِن واقعات کو مد ِنظر رکھتے ہوئے وزارت ِداخلہ نے غیر ملکی شہریوں اور سفارتکاروں کو حفاظتی غرض سے غیر ضروری نقل و حرکت محدود کرنے کی ہدایات جاری کردی ہیں ۔ سفارتکاروں کو نئے قواعد و ضوابط پر عملدرآمد کے احکامات جاری کر دئیے ہیں جبکہ وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ سفارتی دستاویز کے بغیرغیر متعلقہ مقام پر پائے جانیوالے سفارتکاروں کیخلاف کارروائی کی جائے گی اور 3 سے زیادہ مرتبہ خلاف ورزی کرنیوالے سفارتکار کو ناپسندیدہ شخص قرار دے کر پاکستان بدر کر دیا جائے گا۔
حکومت نے افغان شہریوں کی نقل و حرکت کے حوالے سے بھی پالیسی ترتیب دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ غیر ملکی سفارتکاروں کی گاڑیوں کی رجسٹریشن کے حوالے سے وزارت داخلہ‘ خارجہ اور نادرا کے حکام پر مشتمل کمیٹی کام کرے گی۔