وائٹ ہاؤس: امریکہ کے صدر کا گھر کیسا ہے؟
امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں واقع صدر کی سرکاری رہائش گاہ وائٹ ہاؤس کو دُنیا میں طاقت کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ خوب صورت سبزہ زاروں سے گھری اور درجنوں کمروں پر مشتمل یہ تاریخی عمارت ماضی میں کئی اتار چڑھاؤ دیکھ چکی ہے۔
وائٹ ہاؤس کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق 1791 میں پہلے امریکی صدر جارج واشنگٹن نے امریکی صدر کی رہائش گاہ کے لیے جگہ کا انتخاب کیا تھا جہاں بعد میں وائٹ ہاؤس کی پرشکوہ عمارت تعمیر کی گئی۔
عمارت کا سنگِ بنیاد 1792 میں رکھا گیا۔ دنیا بھر سے فنِ تعمیر کے ماہرین سے عمارت کے ڈیزائن کے لیے تجاویز طلب کی گئیں جن میں سے آئر لینڈ کے ماہر تعمیرات جیمز ہوبن کا ڈیزائن منظور کیا گیا۔
وائٹ ہاؤس کا تعمیراتی کام آٹھ سال میں مکمل ہوا جس کے بعد اس وقت کے امریکی صدر جان ایڈمز اور اُن کی اہلیہ اس عمارت میں سن 1800 میں منتقل ہو گئے۔
سن 1814 میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی برطانیہ اور اس کے اتحادیوں سے جنگ کے دوران برطانوی افواج نے وائٹ ہاؤس کو آگ لگا دی جس کے بعد جیمز ہوبن کو ہی عمارت کو ازسر نو بحال کرنے کا ٹاسک سونپا گیا۔
صدارتی الیکشن میں گنتی کے آخری مراحل، پولیس پر دباؤ
امریکہ میں صدارتی انتخابات کے بعد ووٹوں کی گنتی پر مامور پولنگ عملے کی جانب سے کئی ریاستوں میں پولیس بھجوانے کی درخواستوں میں اضافہ ہوا ہے تاکہ ووٹوں کی گنتی کے دوران امن و امان کی صورتِ حال کو قابو میں رکھا جا سکے۔
ریاست پینسلوینیا کے سب سے بڑے شہر فلاڈیلفیا اور ایریزونا کے شہر فینکس تک الیکشن دفاتر کے قریب پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد تعینات ہے جو سرکاری دفاتر اور اسکولوں میں گنتی پر مامور پولنگ عملے کو سیاسی جماعتوں کے مظاہرین سے دُور رکھنے میں کوشاں ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ اب تک مجموعی صورتِ حال قابو میں ہے۔ تاہم جوں جوں گنتی کا عمل مکمل ہو رہا ہے، سیاسی تناؤ بھی بڑھ رہا ہے۔
ریاست نیواڈا کی کلارک کاؤنٹی میں ووٹرز رجسٹرار جو گلوریا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُن کا عملہ عمارت سے باہر جاتے ہوئے خوف محسوس کر رہا اور وہ حق بجانب بھی ہے کیوں کہ باہر سیاسی جماعتوں کے جوشیلے کارکن موجود ہیں۔
لیکن اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے تحفظ کے لیے کاؤنٹی پولیس کے علاوہ دیگر سیکیورٹی اداروں کے اہلکار بھی موجود ہیں اور ہم ان انتظامات سے مطمئن ہیں۔
امریکی ریاست ایریزونا کے شہر فینکس کے انتخابی دفتر کے باہر جمعرات اور جمعے کو ری پبلکن اور ڈیمو کریٹک جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی تھیں۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ وہ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ امن و امن میں خلل ڈالنے کی کوشش کرنے کے الزام میں بعض افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔
تین نومبر کو ہونے والے الیکشن کے بعد اب بھی چھ ریاستوں سے نتائج آنا باقی ہیں۔ ڈیمو کریٹک اُمیدوار جو بائیڈن 253 الیکٹورل ووٹس کے ساتھ آگے ہیں جب کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 213 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے ہیں۔
ووٹرز نے ہمیں تبدیلی کے لیے مینڈیٹ دیا ہے: بائیڈن
ڈیمو کریٹک صدارتی اُمیدوار جو بائیڈن نے کہا ہے کہ اُنہوں نے اور نائب صدارت کی اُمیدوار کاملا ہیرس نے کرونا وبا سے بچاؤ اور معاشی منصوبہ بندی کے لیے ماہرین سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
جمعے کی شب ڈیلاویئر میں کاملا ہیرس کے ہمراہ خطاب کرتے ہوئے جو بائیڈن نے کہا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے نتائج سے واضح ہو گیا ہے کہ ہم جیت رہے ہیں۔ اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ 300 الیکٹورل ووٹ حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔
جو بائیڈن نے کہا کہ اُنہوں نے سات کروڑ 40 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کر لیے ہیں جب کہ گنتی اب بھی جاری ہے۔ اس سے قبل کسی صدارتی اُمیدوار نے اتنے ووٹ نہیں لیے۔
بائیڈن نے کہا کہ امریکی عوام نے بڑی تعداد میں اپنے ووٹ کا حق استعمال کر کے فیصلہ سنا دیا ہے کہ وہ کرونا وبا، نسلی تعصب اور معاشی ابتری کے خلاف فوری ایکشن چاہتے ہیں اور ہم بھی اُنہیں مایوس نہیں کریں گے۔
اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ امریکہ کے ہر طبقے ہر رنگ نسل سے تعلق رکھنے والوں نے اُنہیں تبدیلی کے لیے مینڈیٹ دیا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ ڈیمو کریٹک پارٹی 28 سال بعد جارجیا سے جیت رہی ہے جب کہ ایریزونا میں بھی 28 سال بعد ہمیں فتح مل رہی ہے۔
اب تک کے نتائج کے مطابق جو بائیڈن 253 الیکٹورل ووٹوں کے ساتھ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں برتری حاصل کیے ہوئے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے 213 الیکٹورل ووٹ ہیں۔
صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم ووٹنگ کے عمل میں بے ضابطگیوں کا الزام عائد کر رہی ہے جب کہ صدر کی مہم نے بعض ریاستوں میں گنتی رکوانے یا پولنگ اسٹیشن تک رسائی کے لیے عدالت سے بھی رُجوع کر رکھا ہے۔
بائیڈن اپنے حق میں نتائج کے لیے پرامید
امریکی صدارتی انتخابات کے لیے ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی جاری ہے اور چھ ریاستوں میں نتائج کا انتظار ہے۔ ریاست ڈیلاویئر کے شہر ولمنگٹن میں ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن کی انتخابی مہم کا ہیڈ کوارٹر ہے جہاں وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ نتائج کا انتظار کر رہے ہیں۔ مزید جانتے ہیں وائس آف امریکہ کی نیلوفر مغل سے۔