امریکہ میں اس سال نومبر کے صدارتی انتخابات کے لئے ری پبلکن پارٹی کی صدارتی نامزدگی جیتنے کے خواہشمند امیدوار جہاں ان امور پر بات کر رہے ہیں جو امریکی عوام کے لئے اندرون ملک اہم ہیں ، وہاں ان کی توجہ بیرون ملک امریکی پالیسیوں پر بھی ہے ۔ ایران خاص طور پر ریپبلکن امیدواروں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
ایران کے خلاف امریکہ کی اقتصادی پابندیوں کے اثرات ظاہر ہوتے ہی ایرانی فوجی قیادت کے لہجے میں امریکہ کے لئے نئی تلخی پیدا ہو گئی ہے ۔ ایران نے حال ہی میں خلیجی ملکوں سے تیل کی رسد کی اہم راہداری ہرمز کی کے قریب اپنی بحری مشقیں مکمل کی ہیں اور دھمکی دی ہے کہ اگر مغربی ملکوں نے ایرانی تیل کی برآمد پر پابندیاں عائد کیں تو تہران اس راہداری سے تمام عالمی بحری نقل و حمل پر پابندی لگا دے گا ۔ ریپبلکن پارٹی کی صدارتی نامزدگی جیتنے کے خواہشمند مٹ رومنی اوباما انتظامیہ کی ایران پالیسیوں کے حامی نہیں ہیں ۔
وہ کہتے ہیں کہ اوباما نہ تو موثر پابندیاں عائد کر سکے ، نہ حکومت مخالف مظاہرین کی مدد کر سکے، اور نہ ہی ایران کو ایٹمی عزائم سے روکنے کے لئے کوئی قابل عمل پالیسی بنا سکے ۔
ایران امریکہ اور مغرب کے اس الزام کو مسترد کرتا ہے کہ وہ اپنے توانائی پروگرام کے تحت ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ریاست آیووامیں ریپبلکن نامزدگی کی دوڑ کے پہلے مرحلے کاکس میں دوسرے نمبر پر رہنے والے ریپبلکن امیدوار رک سینٹورم بھی ایران کو دھمکیوں سے باز نہیں آئے ۔ ان کا کہنا ہے کہ میں ایرانیوں سے کہوں گا ، کہ اپنی ایٹمی تنصیبات کو عالمی انسپیکٹرز کے لئے کھول دیں ، ورنہ ہم انہیں فضائی حملوں کا نشانہ بنائیں گے ۔
مگر ریپبلکن امیدوار ی کے خواہشمندکتنی بھی دھمکیاں دے لیں ، ماہرین کہتے ہیں کہ ان کی پوزیشن اوباما انتطامیہ کی موجودہ پوزیشن سے زیادہ مختلف نہیں ہے ۔کونسل آن فارن ریلیشنز کے جیمز لنڈ کہتے ہیں کہ ہر کوئی خطرے کی نشاندہی تو کرارہاہے لیکن حل پر بات نہیں ہورہی۔
ماہرین کہتے ہیں کہ صدارتی امیدوار خارجہ پالیسی سے متعلق امور پر بڑی بڑی باتیں عوام کو متاثر کرنے کے لئے کرتے ہیں ۔ جینیفر لا لیس امیرکن یونیورسٹی میں سیاسیات پڑھاتی ہیں ۔ ان کا کہناہے کہ ایران کے بارے میں کوئی زیادہ نہیں جانتا ۔ ہمیں نہیں معلوم ، ان کی ایٹمی صلاحیت کتنی ہے ، وہ کیا کرنے والے ہیں ، اور مستقبل میں کیا ہوگا۔ گویا ریپبلکن امیدواروں کے لے اچھا موقعہ ہے کہ وہ اپنے ووٹروں کو رام کرنے کے لئے کوئی بھی نعرہ لگا دیں ۔
لیکن امریکہ میں ایسے ایرانی بھی رہتے ہیں ، جن کے خیال میں ریپبلکن پارٹی کے کیمپ سے اٹھنے والی ایران مخالف آوازیں کچھ زیادہ ہی بلند ہیں ۔
جمال عابدی نیشنل ایرانین امیرکن کونسل کے پالیسی ڈائریکٹر ہیں ۔ ان کا کہناہے کہ ایران کے خلاف سخت پابندیاں عائد کرنے کی پالیسی سے گریز کرتے ہوئے بات چیت کا راستہ اپنایا جائے ، لیکن ان کے خیال میں 2012ء میں شاید ایسا نہ ہو سکے ، کیونکہ یہ سال امریکہ میں اگلے صدراتی انتخاب کا سال ہے ۔