’لاس اینجلس ٹائمز‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ اگر امریکی کانگریس نے فوری قدم نہ اٹھایا تو پھر اِس سال کے آخر تک وفاقی انتظامیہ دس لاکھ سے زیادہ بےروزگاروں کو اُن کی مالی امداد کی ادائگی بند کر دے گی۔
اُدھر ریاستی حکومتوں اور آجروں پر وفاقی حکومت کی طرف سے دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ اُن مراعات کی ادائگی کر دیں جو اُنہیں پہلے ہی فراہم کر دی گئی ہیں ۔ بے روزگاری کے بیمے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ خود یہ بیمہ ہے، جس کی وجہ سے بے روزگاری کی مدّت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اخبارکہتا ہے کہ ریاستوں کے ذمّے یہ کام ہے کہ وہ بے روزگاری کے بیمے کی شرح اور مراعات وغیرہ کی حد مقرّر کریں اور بے روزگار لوگوں کو ابتدائی مالی مراعات فراہم کریں۔ واشنگٹن اُس صورت میں اضافی ہفتوں کی مراعات فراہم کرے جب بے روزگاری بُہت بڑھ جائے۔
اخبار کہتا ہے کہ بے روزگاری اِس شدید حد تک بڑھ گئی ہے کہ کیلی فورنیا کو واشنگٹن سے اربوں ڈالر کا قرض لینا پڑا ہے۔ چنانچہ، کیلی فورنیا ا ور بے روزگای سے بری طرح متاثّر دوسری ریاستوں کے اپنے مالی وسائل ختم ہونے کی صورت میں وفاقی حکومت کو روزگار کی تلاش میں سرگرداں افراد کو وفاقی امداد جاری رکھنی چاہئے۔
اخبار کہتا ہے کہ اِس صورت حال کا بہترین حل یہ ہے کہ روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں، لیکن جب تک حکومت کی مدد کے ساتھ یا اُس کے بغیر خود مارکیٹ روزگار پیدا نہیں کرتی کانگریس کو وہ مراعات فراہم کرتے رہنا پڑے گا، تاکہ ایسے خاندانوں کوغربت سے بچایا جائے اور ملک کی معیشت کو مزید سکڑنے سے بچایا جائے۔
امریکی کالج طلبہ کا مجموعی قرضہ پہلی مرتبہ دس کھرب ڈالر سے تجاوز کرگیا ہے۔ اِس میں وہ قرضے شامل نہیں ہیں جو اُن کے والدین نے اُن کے لئے لے رکھے ہیں۔
اِس پر تبصرہ کرتے ہوئے، اخبار ’مرکری نیوز‘ کہتا ہے کہ طلبہ کو پہلے کے مقابلےمیں دوگنا قرض لینا پڑتا ہے، جِس کی جُزوی وجہ یہ ہے کہ ریاستی حکومتوں نے اعلیٰ تعلیم کےلئے اعانت کی رقم کر دی ہے۔ دوسری طرف، اعلیٰ تعلیم کے لئے قرض لینے والے طلبہ کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور کالج بھی اپنی فیسیں بڑھاتے جا رہے ہیں۔
اخبار نے کانگریس، صدراوبامہ اور ریاستی قانون سازاداروں کو مشورہ دیا ہےکہ سیاسی جھگڑوں سے بالا تر ہو کر اِس پر توجّہ دیں کہ اگلی امریکی نسل کا کیا بن رہاہے۔ اُن میں سے بیشتر ابھی سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہیں جنہیں صرف اپنا مستقبل سنوارنے کی فکر ہے۔ صدراوبامہ نے پچھلے ہفتےقرضوں میں جکڑے ہوئے طلبہ کو یہ پیشکش کی کہ جنوری کے مہینے سےوہ وفاقی قرضے اور وفاقی حمایت سے حاصل کئے ہوئے قرضوں کوملا سکیں گے اور ان کے سُود کی شر ح کم کر دی جائے گی۔
کیا امریکی فوجوں کے عراق سے انخلا کے بعد ایران کوعراق میں زیادہ اثرو نفوذ حاصل ہوگا؟ اِس کا کونسل آف فارن ریلیشنزکے ایک سینئر فیلو رے تاکیح نے’واشنگٹن پوسٹ‘ میں تجزیہ کرتے ہوئےکہا ہے کہ بارسوخ حلقوں کے اصرار کےباوجود کہ اس انخلا سےایران کو فائدہ ہوگا، حقیقت یہ ہے کہ عراق کے مستقبل کے بارے میں ایران کا جو متنازعہ تصور ہے اُس نے اور اس کی پُھوٹ ڈالے عالی چالبازیوں نے اسے عراقیوں سے دور کردیا ہے۔
ایران کو عراقی خانہ جنگی کےدورمیں اس ملک میں اپنا اثر ڈالنے کا موقع ملا ہوگا۔ لیکن اب جب کہ عراق اپنے قومی اداروں کی ترتیبِ نو کر رہا ہے، ایران کا اثرو رسوخ گرتا جا رہا ہے۔ مصنّف کا کہنا ہے کہ شروع ہی سے ایران کے حکمران طبقے کا عراق کے شیعہ عامتہ النّاس کے اندر کوئی ہمدرد طبقہ موجود نہیں تھا۔
ایران کے ملّاؤں کی مطلق العنانیت کا عراقی روائتی شیعہ روایات کے ساتھ تضاد رہا ہے۔ مصنّف کا کہنا ہے کہ عراق کے سب سےبارسوخ دینی رہنما آیت اللہ علی سیستانی مقبول دینی علما کی طرح اس خیال کو ردّ کرتے ہیں کہ اسلامی حکومت کا تقاضا ہےکہ ملّاؤں کا اقتدارپر براہ راست قبضہ ہو۔
عراق کی شیعہ سیاسی جماعتیں، بشمول وزیراعظم نوری المالکی کی جماعت کے، جن کے ایران کے ساتھ دیرینہ تعلّقات ہیں ایرانی نظام کو ناقابل مدافعت سمجھتے ہیں۔ٕ مصنّف کا کہنا ہے کہ عراق کے شیعوں کو اس کا ادراک ہے کہ اُنہیں ایک مختلف طرز نظام ِحکومت کی ضرورت ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: