پاکستان میں ایک گیارہ سالہ عیسائی لڑکی کوپچھلے ہفتے اس الزام میں جیل میں ڈال دیا گیاکہ اُس نے ایک کاغذ، جس پر مقدّس آیات درج تھیں، جلا دیا تھا ، اور اب اس کی قسمت کا فیصلہ اس کے بار ے میں آنے والی اُس طبّی رپورٹ پر منحصّر ہے آیا اُس کا دماغی توازن واقعی خراب ہے۔
اخبار ’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ اہانت سے متعلّق پاکستان کے متنازعہ قانون کی رو سے مقدّس آیات کی بے حرمتی کرنے کی سزا موت ہے اور مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس لڑکی کادماغی توازن درست نہیں ہے، جِس کی بنا پر حکام اسے معافی دے سکتے ہیں۔
اخبار کہتا ہےکہ حالیہ برسوں میں پاکستان کو اہانت کےایسے کئی مقدّموں سے نمٹنا پڑا ہےاور وُہ چونکہ دنیا بھر کی نظروں میں ہے اس لئے اس قسم کے مقدّموں کی وجہ سے نہ صرف اس کی اپنے زُعما اور اقلیتوں کی طرف سے سخت مذمّت کا سامنا رہتا ہے، بلکہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے بھی ، جسے پاکستان پر حاوی مذہبی جنون کی فضا پر تشویش ہے ، پاکستانی لیڈروں کو اُن مقامی طبقوں کے دباؤ کا بھی سامنا ہے، جنہیں اہانت کی تُہمت لگنے والوں کو جسمانی سزا دینے پر اصرار ہے۔
آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجیئے:
عیسائیوں کے انسانی حقوق کے ایک ادارے کے سربراہ پیٹر جیکب کے حوالے سے اخبار کہتا ہے کہ لگ بھگ تین سوافراد اس بستی سے بھاگ گئے ہیں ، جہاں یہ لڑکی رہتی تھی اور اب جب کہ حالات میں بہتری آئی ہےلوگ وہاں واپس نہیں جانا چاہتے، کیونکہ اس کی کون ضمانت دے گا کہ حالات دوبارہ خراب نہیں ہونگے۔ اور اخبار کہتاہے کہ ماضی میں ایسے قوانین میں ترمیم کرنے کی کوششیں ناکام ہو ئی ہیں، امریکہ میں پاکستان کی موجودہ سفیر شیری رحمان نے بھی سنہ2010 میں قومی اسمبلی میں ایسی ہی ترمیم کاایک مسوّدہٴ قانون پیش کیا تھا جس میں اہانت کے قوانین میں موت کی سزا ختم کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ لیکن، حکومت کو اعلان کر نا پڑاکہ یہ قانون نہیں بدلا جائے گا۔
جب مذہبی جماعتوں نے دباؤ ڈالا اور پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر اور مرکزی وزیر شہباز بھٹّی کو قتل کیا گیا، وُہ دونوں یہ قانون بدلنے کی اعلانیہ حمائت کرتے تھے۔اور شہباز بھٹی کے بھائی پال بھٹّی کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت میں اتنا دم نہیں ہے کہ وہ یہ قانون بدلے اور اگر بفرض محال ایسا ہوا بھی تو لوگوں کی ذہنیت کون بدلے گا۔ اس سے پہلے مذہبی روا داری کو فروغ دینا زیادہ ضروری ہے ۔
عیسائیوں کے انسانی حقوق کے ادارے کے تخمینوں کے مطابق پاکستان میں ہر سال سو افراد پر اہانت کا یہ الزام لگتا ہے اور یہ تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ اور اس ادارے کے بقول ان میں سے بیشتر الزام بے بنیاد ہوتے ہیں، جو یا تو ذاتی عداوت یا اقلیتوں کے خلاف تعصّب کی بنا پر لگائے جاتے ہیں ۔
’واشنگٹن پوسٹ ‘ کی اطلاع ہے کہ افغان عہدہ داروں نے اپنی ہی پولیس اور فوج کے لئے بھرتی کئے جاے والے رنگروٹوں کی جاسوسی کرنے کے ایک وسیع پروگرام پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے، جو اخبار کے خیال میں اس بات کا اعتراف ہے کہ ماضی میں باغیوں کے ملک کی سیکیورٹی کی سروسز میں گھسنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کی لئے جو کُچھ کیا گیا تھا، وہ ناکام ہو گیا ہے۔
یہ قدم سیکیورٹی سروسز کے اندرہی سے ہونے والے حملوں کے بعد اُٹھایا گیا ہے جنہوں نے امریکی اور افغان فوجی شراکت داری کو ایک ایسے مرحلے کے دوران ہلا کر رکھ دیا ہے، جس کی کامیابی کا دارومدار دونوں فریقین کے مابین قریبی تعاون پر ہے، پچھلے بارہ روز کے دوران نو امریکی فوجی اپنے افغان ہم منصبوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ہیں۔ اس سال اندر ہی سے ہونے والے حملوں میں چالیس اتحادی فوجی ہلاک ہوئے ہیں، جس پر صدر اوباما نے کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ کو اوپر سے نیچے تک اندر ہی سے ہونے والے ایسے حملوں پر گہری تشویش ہے۔
چنانچہ، اب کیا یہ جا رہا ہے کہ پورے افغانستان میں افغان سیکیورٹی یونٹوں میں ا نڈر کور انٹیلی جینس افسر متعیّن کئے جار ہے ہیں۔افغان فوجیوں کی اپنے اہل خانہ سے ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت پر زیادہ کڑی نگرانی کی جائے گی اور رنگروٹوں کے لئےسیل فونوں کی مکمّل مناہی کر دی گئی ہے،تاکہ انہیں کسی باغی سے رابطہ کرنے کو کوئی موقعہ نہ ملے۔
’ واشنگٹن پوسٹ‘ کہتا ہے کہ نیٹو نے حالیہ دنوں میں اس قسم کے حملوں کوروکنے کے لئے قدم اُٹھائے ہیں ، جنہیں طالبان لیڈر ملّا عُمر نے اپنی تنطیم کی حکمت عملی کا ایک اہم جُزو قرار ددیا ہے۔اور پور ے افغانستان میں نیٹو فوجیوں کو ہدائت کی گئی ہےکہ وُہ اپنے ہتھیاروں کو تمام وقت لوڈ کر کے رکھا کریں۔
افغان عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پچھلے ہفتے 176 ، انٹیلی جینس افسر فوجی بٹا لینوں میں بھیجے گئے ہیں جن میں سے بیشتر انڈر کور رہیں گے ۔
اخبار ’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ اہانت سے متعلّق پاکستان کے متنازعہ قانون کی رو سے مقدّس آیات کی بے حرمتی کرنے کی سزا موت ہے اور مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس لڑکی کادماغی توازن درست نہیں ہے، جِس کی بنا پر حکام اسے معافی دے سکتے ہیں۔
اخبار کہتا ہےکہ حالیہ برسوں میں پاکستان کو اہانت کےایسے کئی مقدّموں سے نمٹنا پڑا ہےاور وُہ چونکہ دنیا بھر کی نظروں میں ہے اس لئے اس قسم کے مقدّموں کی وجہ سے نہ صرف اس کی اپنے زُعما اور اقلیتوں کی طرف سے سخت مذمّت کا سامنا رہتا ہے، بلکہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے بھی ، جسے پاکستان پر حاوی مذہبی جنون کی فضا پر تشویش ہے ، پاکستانی لیڈروں کو اُن مقامی طبقوں کے دباؤ کا بھی سامنا ہے، جنہیں اہانت کی تُہمت لگنے والوں کو جسمانی سزا دینے پر اصرار ہے۔
آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجیئے:
عیسائیوں کے انسانی حقوق کے ایک ادارے کے سربراہ پیٹر جیکب کے حوالے سے اخبار کہتا ہے کہ لگ بھگ تین سوافراد اس بستی سے بھاگ گئے ہیں ، جہاں یہ لڑکی رہتی تھی اور اب جب کہ حالات میں بہتری آئی ہےلوگ وہاں واپس نہیں جانا چاہتے، کیونکہ اس کی کون ضمانت دے گا کہ حالات دوبارہ خراب نہیں ہونگے۔ اور اخبار کہتاہے کہ ماضی میں ایسے قوانین میں ترمیم کرنے کی کوششیں ناکام ہو ئی ہیں، امریکہ میں پاکستان کی موجودہ سفیر شیری رحمان نے بھی سنہ2010 میں قومی اسمبلی میں ایسی ہی ترمیم کاایک مسوّدہٴ قانون پیش کیا تھا جس میں اہانت کے قوانین میں موت کی سزا ختم کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ لیکن، حکومت کو اعلان کر نا پڑاکہ یہ قانون نہیں بدلا جائے گا۔
جب مذہبی جماعتوں نے دباؤ ڈالا اور پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر اور مرکزی وزیر شہباز بھٹّی کو قتل کیا گیا، وُہ دونوں یہ قانون بدلنے کی اعلانیہ حمائت کرتے تھے۔اور شہباز بھٹی کے بھائی پال بھٹّی کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت میں اتنا دم نہیں ہے کہ وہ یہ قانون بدلے اور اگر بفرض محال ایسا ہوا بھی تو لوگوں کی ذہنیت کون بدلے گا۔ اس سے پہلے مذہبی روا داری کو فروغ دینا زیادہ ضروری ہے ۔
عیسائیوں کے انسانی حقوق کے ادارے کے تخمینوں کے مطابق پاکستان میں ہر سال سو افراد پر اہانت کا یہ الزام لگتا ہے اور یہ تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ اور اس ادارے کے بقول ان میں سے بیشتر الزام بے بنیاد ہوتے ہیں، جو یا تو ذاتی عداوت یا اقلیتوں کے خلاف تعصّب کی بنا پر لگائے جاتے ہیں ۔
’واشنگٹن پوسٹ ‘ کی اطلاع ہے کہ افغان عہدہ داروں نے اپنی ہی پولیس اور فوج کے لئے بھرتی کئے جاے والے رنگروٹوں کی جاسوسی کرنے کے ایک وسیع پروگرام پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے، جو اخبار کے خیال میں اس بات کا اعتراف ہے کہ ماضی میں باغیوں کے ملک کی سیکیورٹی کی سروسز میں گھسنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کی لئے جو کُچھ کیا گیا تھا، وہ ناکام ہو گیا ہے۔
یہ قدم سیکیورٹی سروسز کے اندرہی سے ہونے والے حملوں کے بعد اُٹھایا گیا ہے جنہوں نے امریکی اور افغان فوجی شراکت داری کو ایک ایسے مرحلے کے دوران ہلا کر رکھ دیا ہے، جس کی کامیابی کا دارومدار دونوں فریقین کے مابین قریبی تعاون پر ہے، پچھلے بارہ روز کے دوران نو امریکی فوجی اپنے افغان ہم منصبوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ہیں۔ اس سال اندر ہی سے ہونے والے حملوں میں چالیس اتحادی فوجی ہلاک ہوئے ہیں، جس پر صدر اوباما نے کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ کو اوپر سے نیچے تک اندر ہی سے ہونے والے ایسے حملوں پر گہری تشویش ہے۔
چنانچہ، اب کیا یہ جا رہا ہے کہ پورے افغانستان میں افغان سیکیورٹی یونٹوں میں ا نڈر کور انٹیلی جینس افسر متعیّن کئے جار ہے ہیں۔افغان فوجیوں کی اپنے اہل خانہ سے ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت پر زیادہ کڑی نگرانی کی جائے گی اور رنگروٹوں کے لئےسیل فونوں کی مکمّل مناہی کر دی گئی ہے،تاکہ انہیں کسی باغی سے رابطہ کرنے کو کوئی موقعہ نہ ملے۔
’ واشنگٹن پوسٹ‘ کہتا ہے کہ نیٹو نے حالیہ دنوں میں اس قسم کے حملوں کوروکنے کے لئے قدم اُٹھائے ہیں ، جنہیں طالبان لیڈر ملّا عُمر نے اپنی تنطیم کی حکمت عملی کا ایک اہم جُزو قرار ددیا ہے۔اور پور ے افغانستان میں نیٹو فوجیوں کو ہدائت کی گئی ہےکہ وُہ اپنے ہتھیاروں کو تمام وقت لوڈ کر کے رکھا کریں۔
افغان عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پچھلے ہفتے 176 ، انٹیلی جینس افسر فوجی بٹا لینوں میں بھیجے گئے ہیں جن میں سے بیشتر انڈر کور رہیں گے ۔