اخبار 'وال اسٹریٹ جرنل' میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں چین کی مسلح افواج کی صلاحیت اور استعدادِ کار پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔
مضمون نگار لکھتا ہے کہ 1990ء کی دہائی کے بعد سے چین کی 'پیپلز لبریشن آرمی' کی تعداد اور صلاحیت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ماضی قریب تک سنہ 50 کی ٹیکنالوجی پر انحصار کرنے والی اور محدود فضائی اور بحری صلاحیت کی حامل چینی افواج اس اضافے کی بدولت اب دنیا کی دوسری بڑی فوجی طاقت بن گئی ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ اہم تبدیلی یہ ہے کہ چینی افواج اب چین کے آس پاس ہی نہیں بلکہ براعظم ایشیا سے باہر بھی دور دراز علاقوں میں بھرپور صلاحیت کےساتھ 'آپریٹ ' کرسکتی ہیں۔
'وال اسٹریٹ جرنل' کے مطابق چین تیزی سے اپنی بحریہ کی استعدادِ کار میں اضافہ کر رہا ہے اور اسے گہرے پانیوں تک توسیع دینے کے لیے پرعزم ہے۔ 70 آبدوزوں پر مشتمل بحری بیڑے کی تیاری اور رواں برس کے آخر تک پہلے طیارہ بردار جہاز کی چینی فوج میں شمولیت اسی مقصد کی جانب پیش رفت ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ چینی فضائیہ بھی تیزی سے جدت کی جانب گامزن ہے اور اس میں جدید ترین 'فورتھ جنریشن' لڑاکا طیارے شامل کیے جارہے ہیں۔ چینی فضائیہ رات کے اوقات میں اور بحری و بری افواج کے ساتھ مل کر کی جانے والی کاروائیوں کی اپنی صلاحیت میں بھی بتدریج اضافہ کر رہی ہے۔
'وال اسٹریٹ جرنل' لکھتا ہے کہ روایتی اسلحے اور افواج کے ساتھ ساتھ چین کی میزائل ٹیکنالوجی میں بھی 90ء کی دہائی کے بعد تیزی سے جدت آئی ہے اور چین کے اسلحہ خانے میں بین البراعظمی میزائلوں سمیت کئی اہم اضافے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر چین کے بحری جہاز شکن بیلسٹک میزائل 'ڈی ایف 21' نے دنیا کی توجہ حاصل کی ہے جو امریکہ کے طیارہ بردار بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
لیکن 'وال اسٹریٹ جرنل' کے مضمون نگار کے بقول ہتھیاروں کی یہ تام جھام تصویر کا صرف ایک رخ ہے ۔ مضمون نگار کے مطابق اگر دستیاب معلومات کی بنیاد پر چینی مسلح افواج کی صلاحیت اور معیار کو پرکھا جائے تو صورتِ حال کچھ اتنی حوصلہ افزا دکھائی نہیں دیتی۔
اخبار لکھتا ہے کہ چینی فوج کی تربیت جدید خطوط پر نہیں ہوئی ہے اور وہ مغربی افواج کے مقابلے میں کم تربیت یافتہ ہے۔ مثال کے طور پر چینی پائلٹ نسبتاً کم فاصلے تک پرواز اڑانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جب کہ چینی آبدوزیں شاذ ہی ساحل سے دور گہرے پانیوں میں جاتی ہیں۔اس کے علاوہ چینی افواج کے پاس پیشہ وارانہ مہارت کے حامل جونیئر عہدے داروں کی بھی کمی ہے جنہیں کسی بھی جدید فوج کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔
'وال اسٹریٹ جرنل' نے دعویٰ کیا ہے کہ کسی بھی ہنگامی صورتِ حال میں چینی افواج کے ردِ عمل کے لیے طے شدہ ضابطے اور نظام یا تو کمزور ہیں یا ان کی بابت دنیا زیادہ آگاہ نہیں ہے۔اس کے علاوہ چین کے پاس موجود اسلحے کی مقدار سے بھی بیرونی دنیا لاعلم ہے۔
اخبار کے مطابق شنید ہے کہ چینی فوج کا 'کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم' سوویت یونین کی 'ریڈ آرمی' کی طرز پر قائم ہے جس میں فیصلہ سازی کے تمام تر اختیارات مرکزی کمانڈرز کے پاس ہوا کرتے تھے اور میدانِ جنگ میں موجود کمانڈرز کوئی اہم فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں تھے۔ اخبار لکھتا ہے کہ شاید چینی افواج کی سب سے بڑی خامی یہی ہے کہ اس کی صفوں میں جدت کا فقدان اور روایتی جکڑ بندی کی زیادتی ہے۔
'وال اسٹریٹ جرنل' نے لکھا ہے کہ چینی افواج کی صلاحیت اور استعدادِ کار فی الوقت امریکی افواج سے کہیں کم ہے اور مستقبل قریب میں بھی دونوں افواج کے ہم پلہ ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ لیکن اخبار کے مطابق یہ سمجھنا درست نہیں کہ چین کی فوجی تیاری کا واحد مقصد امریکی بالادستی کو چیلنج کرنا ہے۔
'وال اسٹریٹ جرنل' لکھتا ہے کہ اس فوجی تیاری کے پسِ پشت چین کے دیگر سیاسی عوامل بھی کارفرما ہیں جن میں سے ایک خطے میں اپنی ناقابلِ شکست بالادستی قائم کرنا ہے۔اخبار کے مطابق چین ایشیا کی سب سے بڑی فوجی قوت بن کر اپنا یہ ہدف کامیابی سے حاصل کرچکا ہے اور امریکہ چین کے ان علاقائی عزائم کو سمجھنے اور ان کا بروقت توڑ کرنے میں ناکام رہا ہے۔
امریکی سلامتی کو لاحق سب سے بڑا خطرہ: قرض
اخبار 'لاس اینجلس ٹائمز' نے امریکہ پر واجب الادا قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا حقیقی خطرہ قرار دیا ہے۔
اخبار میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ معاشی بحالی اور اقتصادی اصلاحات سے متعلق مسائل امریکہ کی داخلی ہی نہیں بلکہ خارجہ پالیسی کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔ اخبار لکھتا ہے کہ امریکی حکومت کے ذمے واجب الادا قرض اتنا بڑھ چکا ہے کہ امریکی افواج کے سابق سربراہ ایڈمرل مائیک مولن کو بھی اسے ملکی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دینا پڑا۔
اخبار لکھتا ہے کہ امریکہ کو درپیش قرضوں کے بحران کا حل کیا جانا صرف امریکی معاشرے کی خوش حالی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی استحکام کے لیے بھی اشد ضروری ہے۔
'لاس اینجلس ٹائمز' نے لکھا ہے کہ امریکہ کا بجٹ خسارہ کھربوں ڈالرز تک پہنچ گیا ہے اور امریکہ اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے دیگر ممالک، بشمول چین، کی مدد حاصل کرنے پر مجبور ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ اس صورتِ حال کی سب سے خراب بات یہ ہے کہ آئندہ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے والے دونوں امیدواران، صدر براک اوباما اور ان کے ری پبلکن حریف مٹ رومنی، تاحال اس بحران کا کوئی ٹھوس اور قابلِ عمل حل پیش نہیں کرسکے ہیں۔
'لاس اینجلس ٹائمز' کے مضمون نگار کے بقول صورتِ حال اندازے سے کہیں زیادہ گھمبیر ہے۔ قرضوں کی شرح اگر اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو ایک دہائی کے اندر امریکہ کو ہر سال اپنے بجٹ میں سے 10 کھرب ڈالر قرض کی ادائی کے لیے مختص کرنا پڑیں گے جس کے بعد کسی اور مقصد کےلیے وسائل مشکل ہی دستیاب ہوں گے۔
اخبارلکھتا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو بنیادی ڈھانچے کی تعمیر و ترقی، تعلیم، صحت، سائنسی تحقیق اور حکومت کے ان تمام منصوبوں کے لیے فنڈز کم پڑجائیں گے جن پر طویل المیعاد معاشی ترقی کا دارومدار ہے۔ اس صورت میں امریکہ کے دفاعی بجٹ پر بھی زد پڑے گی اور پھر اس بحران سے نکلنا بہت ہی مشکل ہوگا۔
مضمون نگار لکھتا ہے کہ 1990ء کی دہائی کے بعد سے چین کی 'پیپلز لبریشن آرمی' کی تعداد اور صلاحیت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ماضی قریب تک سنہ 50 کی ٹیکنالوجی پر انحصار کرنے والی اور محدود فضائی اور بحری صلاحیت کی حامل چینی افواج اس اضافے کی بدولت اب دنیا کی دوسری بڑی فوجی طاقت بن گئی ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ اہم تبدیلی یہ ہے کہ چینی افواج اب چین کے آس پاس ہی نہیں بلکہ براعظم ایشیا سے باہر بھی دور دراز علاقوں میں بھرپور صلاحیت کےساتھ 'آپریٹ ' کرسکتی ہیں۔
چین کے بحری جہاز شکن بیلسٹک میزائل 'ڈی ایف 21' نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کی ہے جو امریکہ کے طیارہ بردار بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ چینی فضائیہ بھی تیزی سے جدت کی جانب گامزن ہے اور اس میں جدید ترین 'فورتھ جنریشن' لڑاکا طیارے شامل کیے جارہے ہیں۔ چینی فضائیہ رات کے اوقات میں اور بحری و بری افواج کے ساتھ مل کر کی جانے والی کاروائیوں کی اپنی صلاحیت میں بھی بتدریج اضافہ کر رہی ہے۔
'وال اسٹریٹ جرنل' لکھتا ہے کہ روایتی اسلحے اور افواج کے ساتھ ساتھ چین کی میزائل ٹیکنالوجی میں بھی 90ء کی دہائی کے بعد تیزی سے جدت آئی ہے اور چین کے اسلحہ خانے میں بین البراعظمی میزائلوں سمیت کئی اہم اضافے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر چین کے بحری جہاز شکن بیلسٹک میزائل 'ڈی ایف 21' نے دنیا کی توجہ حاصل کی ہے جو امریکہ کے طیارہ بردار بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
لیکن 'وال اسٹریٹ جرنل' کے مضمون نگار کے بقول ہتھیاروں کی یہ تام جھام تصویر کا صرف ایک رخ ہے ۔ مضمون نگار کے مطابق اگر دستیاب معلومات کی بنیاد پر چینی مسلح افواج کی صلاحیت اور معیار کو پرکھا جائے تو صورتِ حال کچھ اتنی حوصلہ افزا دکھائی نہیں دیتی۔
اخبار لکھتا ہے کہ چینی فوج کی تربیت جدید خطوط پر نہیں ہوئی ہے اور وہ مغربی افواج کے مقابلے میں کم تربیت یافتہ ہے۔ مثال کے طور پر چینی پائلٹ نسبتاً کم فاصلے تک پرواز اڑانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جب کہ چینی آبدوزیں شاذ ہی ساحل سے دور گہرے پانیوں میں جاتی ہیں۔اس کے علاوہ چینی افواج کے پاس پیشہ وارانہ مہارت کے حامل جونیئر عہدے داروں کی بھی کمی ہے جنہیں کسی بھی جدید فوج کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔
'وال اسٹریٹ جرنل' نے دعویٰ کیا ہے کہ کسی بھی ہنگامی صورتِ حال میں چینی افواج کے ردِ عمل کے لیے طے شدہ ضابطے اور نظام یا تو کمزور ہیں یا ان کی بابت دنیا زیادہ آگاہ نہیں ہے۔اس کے علاوہ چین کے پاس موجود اسلحے کی مقدار سے بھی بیرونی دنیا لاعلم ہے۔
اخبار کے مطابق شنید ہے کہ چینی فوج کا 'کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم' سوویت یونین کی 'ریڈ آرمی' کی طرز پر قائم ہے جس میں فیصلہ سازی کے تمام تر اختیارات مرکزی کمانڈرز کے پاس ہوا کرتے تھے اور میدانِ جنگ میں موجود کمانڈرز کوئی اہم فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں تھے۔ اخبار لکھتا ہے کہ شاید چینی افواج کی سب سے بڑی خامی یہی ہے کہ اس کی صفوں میں جدت کا فقدان اور روایتی جکڑ بندی کی زیادتی ہے۔
'وال اسٹریٹ جرنل' نے لکھا ہے کہ چینی افواج کی صلاحیت اور استعدادِ کار فی الوقت امریکی افواج سے کہیں کم ہے اور مستقبل قریب میں بھی دونوں افواج کے ہم پلہ ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ لیکن اخبار کے مطابق یہ سمجھنا درست نہیں کہ چین کی فوجی تیاری کا واحد مقصد امریکی بالادستی کو چیلنج کرنا ہے۔
چینی فوج کا 'کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم' سوویت یونین کی 'ریڈ آرمی' کی طرز پر قائم ہے
امریکی سلامتی کو لاحق سب سے بڑا خطرہ: قرض
اخبار 'لاس اینجلس ٹائمز' نے امریکہ پر واجب الادا قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا حقیقی خطرہ قرار دیا ہے۔
اخبار میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ معاشی بحالی اور اقتصادی اصلاحات سے متعلق مسائل امریکہ کی داخلی ہی نہیں بلکہ خارجہ پالیسی کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔ اخبار لکھتا ہے کہ امریکی حکومت کے ذمے واجب الادا قرض اتنا بڑھ چکا ہے کہ امریکی افواج کے سابق سربراہ ایڈمرل مائیک مولن کو بھی اسے ملکی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دینا پڑا۔
اخبار لکھتا ہے کہ امریکہ کو درپیش قرضوں کے بحران کا حل کیا جانا صرف امریکی معاشرے کی خوش حالی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی استحکام کے لیے بھی اشد ضروری ہے۔
'لاس اینجلس ٹائمز' نے لکھا ہے کہ امریکہ کا بجٹ خسارہ کھربوں ڈالرز تک پہنچ گیا ہے اور امریکہ اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے دیگر ممالک، بشمول چین، کی مدد حاصل کرنے پر مجبور ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ اس صورتِ حال کی سب سے خراب بات یہ ہے کہ آئندہ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے والے دونوں امیدواران، صدر براک اوباما اور ان کے ری پبلکن حریف مٹ رومنی، تاحال اس بحران کا کوئی ٹھوس اور قابلِ عمل حل پیش نہیں کرسکے ہیں۔
'لاس اینجلس ٹائمز' کے مضمون نگار کے بقول صورتِ حال اندازے سے کہیں زیادہ گھمبیر ہے۔ قرضوں کی شرح اگر اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو ایک دہائی کے اندر امریکہ کو ہر سال اپنے بجٹ میں سے 10 کھرب ڈالر قرض کی ادائی کے لیے مختص کرنا پڑیں گے جس کے بعد کسی اور مقصد کےلیے وسائل مشکل ہی دستیاب ہوں گے۔
امریکی حکومت کے ذمے واجب الادا قرضوں کی صورتِ حال اندازے سے کہیں زیادہ گھمبیر ہے۔
لاس اینجلس ٹائمز
اخبارلکھتا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو بنیادی ڈھانچے کی تعمیر و ترقی، تعلیم، صحت، سائنسی تحقیق اور حکومت کے ان تمام منصوبوں کے لیے فنڈز کم پڑجائیں گے جن پر طویل المیعاد معاشی ترقی کا دارومدار ہے۔ اس صورت میں امریکہ کے دفاعی بجٹ پر بھی زد پڑے گی اور پھر اس بحران سے نکلنا بہت ہی مشکل ہوگا۔