قدامت پسنداخبار’واشنگٹن ٹائمز‘ نےسنہ2012 کے امریکی صدارتی انتخابات کے بارے میں ایک ادارئے میں ان کا موازنہ سنہ 1980 کے انتخابات سے کیا ہے، جس میں ڈیموکریٹک صدر جمی کارٹر ری پبلکن امید وار رانلڈ ریگن کے مقابلے میں ہار گئے تھے۔
اخبار کہتا ہے کہ اُس وقت اور اب کے حالات میں خاصی مماثلت ہے۔ صدر کارٹر کے دور میں بھی اقتصادی حالات سنگین تھے، افراطِ زر کا مسئلہ درپیش تھا اور بے روزگاری حد سے بڑھی ہوئی تھی ۔اخبار کے مطابق صدر اوباما کے دور میں بھی بے روزگاری کا سنگین مسئلہ ہے اور قومی قرضہ 150 کھرب ڈالر کی حد پار کر چکا ہے۔
ایک اور مماثلت اخبار کی نظر میں ایران کے معاملے میں کارٹر اوباما کی پالیسی میں ہے ۔ کارٹر اس ملک سے امریکی یرغمالیوں کو رہا کرانے میں ناکام ہوئے تھے ، جب کہ اخبار کےخیال میں مسٹر اوباما نے ایران کوجوہری بم بنانے سے روکنے کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔ انتخابات سے پہلے عوام میں دونوں صدور کی مقبولیت کی شرح کا گرنا بھی ایک اور مماثلت ہے۔
البتہ، اخبار کہتا ہے کہ یہ مماثلت یہیں ختم ہوتی ہے،کیونکہ مسٹر کارٹر کے مقابلے میں مسٹر اوباما منجھے ہوئے سیاست دان ہیں،نہایت ہی با ہُنر مقرّر ہیں اور انتخابی مہم چلانے میں اس سے بھی کہیں زیادہ مشّاق ہیں۔ اور انہوں نے پہلے ہی سے اپنی بھر پور انتخابی مہم شروع کرد ی ہے۔
اِسی طرح، مسٹر کارٹر کے برعکس مسٹر اوباما کو سیاہ فام ووٹرو ں میں 85 سے لے کر 95 فی صد کی حمایت حاصل ہے ، جب کہ ہسپانو ی زبان بولنے والے امریکیوں میں سے مسٹر اوباما کو 60 فی صد سے زیادہ کی حمایت حاصل ہے۔
اخبار کا ری پبلکنوں کو مشورہ ہے کہ حد سے زیادہ اعتماد میں نہ رہیں اور مسٹر اوباما کی کمزوریوں پر توجہ رکھیں اور سب سے اہم بات یہ ہےکہ وہ نظریاتی شفافیت کو نظر انداز کر کے ایسے امید وارکو کھڑا کریں ، جِس کےمسٹر اوباما کو ہرانے کے زیادہ امکانات ہوں۔
امریکی انتخابات کے ایک اور پہلو پر اخبار’ شکاگو ٹریبیون‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ امریکیوں کے ذہنوں میں جہاں فلمی ستاروں اور موسیقاروں کے بارے میں خیالات کے سراب پیدا ہوتے ہونگے، وہاں عام طور پر صدارتی امید واروں کے معاملے میں جنسیات کا خال ہی خیال آتا ہوگا۔ لیکن، اخبار کہتا ہے کہ بعض اوقات اس سے مفر ممکن نہیں۔ مثلاً صدارت کے لئے ری پبلکن نامزدگی کے امیدوار نُیوُیٹ گِنگرِچ ، اور ہرمن کین۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ۔ (امریکی ری پبلک کے بانیوں میں سے ایک) تھامس جیفرسن کے بارے میں معاشقوں کی کہانیاں مشہور تھیں۔ لیکن، اس کےباجودد، وہ 1804 ءمیں آسانی کے ساتھ دوسری مرتبہ صدرمنتخب ہوئے تھے ۔ اِسی طرح فرینکلن روزویلٹ اور جان کینیڈی بھی کوئی مثالی خاوند نہیں تھے۔ لیکن، اُن کی لغزشیں عوام کی نظر سے اوجھل رہیں اور جن لوگوں کو ان کا علم تھا، اُنہوں نے اِس کا ذکر بہت بعد میں کیا ۔ اِسی طرح سنہ1987 میں سابق سینیٹر گیری ہارٹ کےڈیموکریٹک صدارتی نامزدگی کے امکانات خاک میں مل گئے جب ایک نا محرم خاتون کے ساتھ ان کے معاشقے کا بھانڈہ پھوڑ دیا گیا ۔ سابق صدر بل کلنٹن کا وہائٹ ہاؤس کی ایک زیرِ تربیت خاتو ن کے ساتھ اُن کے قابل اعتراض تعلقات کی بنا پر اُن کا احتساب ہوا تھا۔
شریکِ حیات سے بےوفائی کا ووٹر کیا اثر لیتے ہیں، اِس پر اخبار کہتا ہے کہ بعض کی نظر میں اس سے امیدواری کا خاتمہ ہو جاتا ہے ۔بعض کے نزدیک اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لئے کہ امید وار کے دوسرے خواص اس پر غالب آ جاتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ بات امیدوار ہرمن کین کے لئے کوئی تسکین کا باعث نہیں ہو سکتی جنہوں نے ری پبلکن دوڑ سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے، کیونکہ اُن پر الزام لگے ہیں کہ اُنہوں نےنیشنل ریستوران ایسوسی ایشن کی سربراہی کے دوران خواتین کو جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا تھا اور یہ کہ ایک خاتوں کے ساتھ اُن کا معاشقہ اس سال تک جاری تھا۔ ان تمام الزامات کے بارے میں اُن کے تردیدی بیانات کی وجہ سے لوگ انہیں جھوٹا سمجھنے لگے۔
ایک اور ری پبلکن امیدوار اور سابق سپیکر نُیوٹ گِنگرِچ بھی اپنی سابقہ دو بیویوں کے ساتھ بے وفائی کا اعتراف کر چکے ہیں۔ اخبار کہتا ہے کہ اُن کی لغزشیں اتنی پرانی ہو چکی ہیں کہ شاید ووٹروں کے لئے انہیں معاف کردینا آسان ہوگا ۔ لیکن اخبار کہتا ہے کہ گِنگرِچ کا ایک اور مسئلہ بھی ہے وہ یہ کہ اُن کی موجودہ بیوی اُن کی سابقہ داشتہ ہیں امریکیوں نے ماضی میں ایسے صدور کے ساتھ گزارہ کیا ہے جنہوں نے اپنی شریک ِحیات سے بے وفائی کی تھی۔ لیکن، بے وفا صدر اور گھر اُجاڑنے والی خاتونِ اوّل؟ ایسا پہلی بار ہوگا۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: