رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے۔ ایران پر حملہ


یو ایس اے ٹوڈے کہتا ہے کہ یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا۔کہ یہ حملے ہونگے لیکن انہیں نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا، بالخصوص امریکہ میں سعودی سفیر کو ہلاک کرنے کی حالیہ ایرانی سازش کے پیش نظر۔ حالات بگڑنے کی صورت میں جواب الجوا ب کاروائی نے طول پکڑا توبھر پُور جنگ کی نوبت بھی آ سکتی ہے۔

اخبار یو ایس اے ٹوڈے ایک ادرا ئے میں کہتا ہے کہ کئی مہینوں سے اسرائیلیوں کے درمیان ایران کی طرف سے جوہری خطرہ زیر بحث موضوع رہا ہے ۔ جس میں وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور وزیر دفاع ایہُود براک کا موقّف جنگجویانہ تھا جب کہ فوجی اور خفیہ ایجینسی موساد کے بعض لیڈروں کا استدلال یہ تھا کہ جوہری ایران سے اسرائیل کے وجُود کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ۔ لیکن یہاں امریکہ میں ری پبلکن صدارتی امید واروں کے درمیان جو بحث ہوئی ہے ، وُہ سطحی تھی ۔ جیسے کہ اگر ایران پر حملہ کیا گیا تو یہ ایک طرح کی چاند ماری کی مشق ہوگی۔ یعنی اندر جاؤ بم گراؤ، ایران کے جوہری پروگرام کو ہمیشہ کے لئے تباہ کردو، اور گھر واپس آؤ۔ اللہ اللہ ، خیر سلا۔ لیکن جیسا کی اخبار کہتا ہے۔ آپ کو خال ہی کوئی فوجی یا انٹلی جنس کا کوئی ایسا ماہر ملے گا، جو اس منطق سے قایل ہوگا ۔ بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ ایران میں جوابی حملہ کرنے کی صلاحیّت ہے ۔ اور اتفاق رائے یہی ہے کہ ایران جوابی حملہ کرے گا ۔ جیسا کہ ہر وہ ملک کرے گا جس پر حملہ کیا گیا ہو ۔ سوال صرف یہ ہے کہ ایسا جوابی حملہ کیا صورت اختیار کرے گا۔ اسرائیل کا اپنا اندازہ یہی ہے کہ جواب میں مزائیلوں سے حملہ ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہو جائے گا۔ اخبار کہتا ہے کہ ایران کے لئے دوسری راہیں بھی کُھلی ہیں، اس میں افغانستان کے اندر امریکی فوجیوں پر ، وسط مشرق میں امریکی تیل کی تنصیبات پر ۔اور خلیج فارس میں امریکی بحری جہازوں پر وار کرنے کی صلاحیت ہے ۔ اور حالات حد سے زیادہ بگڑنے کی صورت میں، تو وہ امریکہ کے اندر اور سمندر پار ملکوں میں امریکی شہریوں کودہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنا سکتا ہے۔

یو ایس اے ٹوڈے کہتا ہے کہ یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا۔کہ یہ حملے ہونگے لیکن انہیں نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا، بالخصوص امریکہ میں سعودی سفیر کو ہلاک کرنے کی حالیہ ایرانی سازش کے پیش نظر۔ حالات بگڑنے کی صورت میں جواب الجوا ب کاروائی نے طول پکڑا توبھر پُور جنگ کی نوبت بھی آ سکتی ہے۔

اخبارکہتا ہے کہ ایک غلط فہمی یہ ہے کہ حملے کے بعد ایرا ن کا جوہری پروگرام ختم ہو جائے گا۔ حالانکہ اُسے شائد چند برسُوں کا دہچکہ لگے گا۔ لیکن اس کے بعد وُہ اس کو خُفیہ طور پر دوبارہ تعمیر کرے گا۔ اور ایرانی حکومت کو، جو اس وقت بین الا قوامی سطح پر راندہء درگا ہ ہے۔باہر کے ملکوں اور ملک کے اندر لوگوں کی ہمدردیاں حاصل ہو جائیں گی۔ جن کو وُہ افرا تفری کے شکار وسط مشرق میں اپنے فائدے کے لئے استعمال کرے گا۔بلکہ بد ترین حالات میں اس حملے کے نتیجے میں انتہا پسند اسلام پسندوں کو جوہری ہتھیار سے لیس پاکستان میں اقتدار حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔

لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اس حملے کو خارج از امکان قرار دینا چاہئے۔ جوہری ہتھیاروں سے لیس ایران کے بارے میں تشویش جائز ہے، لیکں اس میں جو کُچھ داؤ پر لگا ہوا ہے اس کے پیش نظر صدر اوبامہ کا یہ موقّف صائب ہے ۔ کہ گُفتار میں نرمی ٹھیک ہے لیکن ہاتھ میں ایک بڑی چھڑی بھی ہونی چاہئے۔۔

اسی موضوع پر شکاگو ٹریبیون میں ایک کالم نگار رقم طراز ہے کہ بیشتر امریکی اس حقیقت سے بالکل بے خبر ہیں کہ ایران کے ساتھ جنگ چہ معنی دارد ، جنگ کے حامی تو یہی کیہں گے ۔کہ اس کا اثر معمولی ہوگا اور اس پر لاگت بھی زیادہ نہ آئے گی۔ لیکن حقیقت کُچھ اور ہے ۔ایران سے جنگ چھڑی تو تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کریں گی اور معیشت واپس کساد بازاری کی شکار ہو جائےگی۔

افغانستان کی صورت حال پر کرسچن سائینس مانٹر ایک تجزئے میں کہتا ہے کہ اس ملک میں جاری جنگ کے دس سال کے دوران کوئی ہفتہ ایسا نہیں گُزرا جب نیٹو کے طرف سے مکمّل رجائیت کا اظہار نہ کیا گیا ہو۔ اس کی مثال ایک امریکی فوجی اڈّ ے پر قرآن کی ناداستہ بے حرمتی کے بعد احتجاجی مظاہروں میں چار امریکیوں سمیت 40 افراد کی ہلاکت ہے۔اخبار کہتا ہے کہ اس کے باوجود محکمہء دفاع کے ترجمان کا کہنا تھا کہ قطع نظر اس چیلینج کے اعلیٰ حکام کا ماننا ہے کہ ہماری حکمت عملی کی بنیادی باتیں بالکل صائب ہیں۔طالبان کے زور کو توڑنے اور افغان سیکیورٹی افواج کو بڑھانے میں اہم پیش رفت کی گئی ہے۔ ان افوا ج کی تعداد میں اضافہ اور ان کی کارکردگی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔18 ماہ کے عرصے میں ان افواج کی تعداد دوگنی ہو گئی ہے اور وہ زیادہ خود کفیل ہوتی جارہی ہیں۔ ان کی تربیت کا 70 فیصد اب افغانوں کے ہاتھ میں ہے ۔ اخبار کہتا ہے۔ کہ ان اعدادو شمار سے آپ یہ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ یہ پیش قدمی حقیقت کے کس قدر قریب ہے۔بعض اعدادو شمار متاثّر تو کرتے ہیں ۔لیکن انہیں قریب سے پرکھا جائے ۔ تو کُچھ اور حقیقتیں سامنے آتی ہیں۔ مثلاً اس وقت افغان سکولوں میں 24 لاکھ لڑکیوں کے نام درج ہیں ۔ لیکن ان میں سے ایک چوتھائی ایسی ہیں، جوایک سال سے زیادہ عرصے سے سکول سے غائب ہیں۔

XS
SM
MD
LG