’واشنگٹن پوسٹ‘ کے ایک مضمون میں اُن ملحوضات کی وضاحت کی گئی ہےجِن کی بنیاد پر امریکی ڈرون طیارے القاعدہ کے دہشت گردوں کے خلاف استعمال کیے جاتے ہیں۔
معروف کالم نگار ڈیوڈ اگنے ٹیس David Ignatiusکے بقول امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اُسے القاعدہ اور اُس کی حلیف تنظیموں کے تربیتی کیمپوں پر حملے کرنے کا قانونی حق ہے جِس کی بنیاد ستمبر 2001ء میں امریکی کانگریس سے منظور ہونے والا ایک قانون ہے۔
اِس کی رُو سے فوجی طاقت کے استعمال کا اختیار دیا گیا ہے۔ اِس کے علاوہ بین الاقوامی قانون بھی اپنا دفاع کرنے کا حق دیتا ہے۔
نشانہ بنا کر حملہ کرنے کے اِس قانونی اختیار کی وضاحت وہاؤٹ ہاؤس کے انسدادِ دہشت گردی کے سربراہ جان برینن John Brennanنے ہارورڈ میں ایک تقریر کے دوران کی ہے۔
لیکن، ڈیوڈ اِگنے ٹیس کہتے ہیں کہ مسٹر برینن اور دوسرے اعلیٰ عہدے دار، بطور پالیسی یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ نئے جنگی محاذوں کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا جِس کی جُزوی وجہ یہ ہے کہ اُس پھیلتی ہوئی جنگ کو روکا جائے جِس سے اسلامی بغاوت کو ہوا لگتی ہے، بلکہ جیسا کہ اِن عہدے داروں نے کہا ہے،پاکستان کے اُن قبائلی علاقوں سے باہر کیمپوں پر حملے نہیں کیے گئے ہیں جہاں القاعدہ کی کلیدی قیادت نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔
مضمون میں ایک اعلیٰ عہدہ دار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اگر کچھ فرد ہمیں نشانہ بنائیں اور اگر وہ امریکیوں کے خلاف Chain of Commandکا حصہ ہوں تو پھر اُس صورت میں براہ ِ راست کارروائی کی اجازت دی جائے گی، تاکہ اُن لوگوں کو گرفتار یا ہلاک کرنے کی فہرست میں ڈال دیا جائےجس کے بعد ڈرون حملہ یقینی ہے۔ لیکن اِس عہدہ دار نے بالوضاحت کہا کہ یمن اور صومالیہ کے اندر جو محاذ آرائی جاری ہے امریکہ اُس میں ملوث نہیں ہونا چاہتا اور اِن ملکوں میں امریکہ کے خلاف جذبات کو نہیں بھڑکانا چاہتا۔
مضمون نگار کے خیال میں ڈرون سے متعلق پالیسی کی ایک اچھی بات یہ ہے کہ اس میں حدود مقرر کرنے کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ امریکہ کے پاس اتنے کافی ڈرون طیارے نہیں ہیں کہ تمام دشمنوں کو اِن سے مارا جا سکے۔
مزاحمت اِس پالیسی کا ایک اہم پہلو ہے۔ اِسی طور پر دنیا کے اُس خطے میں جنگوں کا خاتمہ ہوتا ہے جہاں القاعدہ نے سر اُٹھایا تھا۔ یعنی ایسی باہمی بردباری کے توازن سے جس کی مدد سےنہایت ہی سخت دشمنوں کے مابین بھی عملی طور پر جنگ بندی ممکن ہو جاتی ہے۔
’کرسچن سائنس مانٹر‘ کہتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں اس وقت جو جمہوری تحریکیں جاری ہیں اُن میں سے بحرین کی تحریک صدر اوباما کے لیے سب سے زیادہ نازک امتحان کی حیثیت رکھتی ہے۔
اِس چھوٹی سی بادشاہت میں اِس وقت پانچواں امریکی بحری بیڑہ لنگر انداز ہے اور سعودی عرب کے لیے یہ ملک پریشانی کا باعث ہے جو سمجھتا ہے کہ بحرین میں اِس وقت شیعہ اکثریت کی طرف سے جو احتجاجی مظاہرے جاری ہیں وہ دراصل درپردہ ایران کے ساتھ جنگ ہے۔
لیکن، اخبار کہتا ہے کہ مظاہرین کے خلاف بحرینی حکومت کا کریک ڈاؤن خاص طور پر بیدردانہ ہے جس میں خواتین تک کو اذیت کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
اِسی لیے، اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوباما کو بحرینی جانشین شہزادے کے ساتھ واشنگٹن میں اپنی ملاقات کو درپردہ رکھنا پڑا۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ ملاقات وہائٹ ہاؤس کی سرکاری مصروفیات میں شامل نہ تھیں، بلکہ صدر قومی سلامتی کے مشیر کے دفتر ایسے میں پہنچ گئے جب بحرینی ولیعہد شہزادہ سلمان بن حماد عیسیٰ الخلیفہ وہاں موجود تھے۔
ولیعہد شہزادہ واشنگٹن کی امریکن یونیورسٹی کے سند یافتہ ہیں اور شاید بحرین میں حقوق انسانی پر امریکی تشویش سے باخبرہوں گے۔ اور شاید صدر اوباما کی طرف سے یہ کڑا پیغام بھی ساتھ لےکر جائیں گے کہ اصلاحات جلد نافذ ہونے چاہئیں اور تشدد کا خاتمہ اِس سے بھی جلد ہونا چاہیئے۔
ٹیکے لگانا کس قدر محفوظ ہے اِس پر’ ہیوسٹن کرانیکل‘ نے بعض جائزوں کی طرف اشارہ کیا ہے جِن کے مطابق ایسے والدین ہیں جو بچوں کو بچپن میں لگنے والی بیماریوں سے بچنے کے ٹیکے لگانے سے یا تو گریز کرتے ہیں یا پھر اِس میں تاخیر کرتے ہیں، کیونکہ اُن کو اندیشہ ہے کہ کہیں اِن سے بچوں کو نقصان نہ پہنچے۔
اِن میں سے بعض بیماریاں ایسی ہیں جو شیر خوار بچوں کے لیے مہلک ثابت ہوسکتی ہیں۔ مثلاً بہت سے لوگوں کو اب بھی یقین ہے کہ ٹیکے لگانے سے بچے کو Autismکی بیماری ہوسکتی ہے۔ حالانکہ، کئی سال قبل یہ اندیشہ غلط ثابت ہوچکا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ ایک تازہ جائزے کے مطابق چھ سال یا اس سے کم عمر کے ہر چھ بچوں میں سے کم از کم ایک کے والدین یا تو ٹیکے لگانے میں تاخیر کرتے ہیں یا پھر سے سرے سے لگاتے ہی نہیں۔ کیونکہ، وہ انھیں محفوظ نہیں سمجھتے۔
چناچہ، اخبار کہتا ہے، کہ اندریں حالات ذمہ دار والدین کا کیا فرض ہے اِس کا جواب اخبار نے یونیورسٹی آف ٹیکسس کی بچوں کی امراض کی ماہر اسسٹنٹ پروفیسر Dr. Latanya Loveسے حاصل کیا ہے جو کہتی ہیں کہ بچوں کے ڈاکٹروں سے یا خاندان کے اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیئے۔ چناچہ، معتبر ذرائع سے صحیح معلومات حاصل کرنے کےبعد کئی والدین صائب اور درست فیصلہ کرسکیں گے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: