رسائی کے لنکس

جنگ شروع کرنے سے جنگ ختم کرنا زیادہ مشکل ہے: اوباما


جنگ شروع کرنے سے جنگ ختم کرنا زیادہ مشکل ہے: اوباما
جنگ شروع کرنے سے جنگ ختم کرنا زیادہ مشکل ہے: اوباما

اخبار ’فلاڈیلفیا انکوائرر‘ اِس موقعے پر سوال اٹھاتا ہے کہ آخر اِس جنگ کا فاتح کون ہے؟ کیا تاریخ اس میں امریکہ کو فاتح قرار دے گی یا اسے بھی کوریائی اور ویت نامی جنگوں ہی جیسا ٹھہرایا جائےگا، جِن کے نتیجے میں دشمن اپنے مقام پر جما رہا اور فریقین میں سے کسی نے بھی ہتھیار نہیں ڈالے

اتوار کے روز امریکہ کا آخری فوجی قافلہ بھی عراق سے کویت میں داخل ہوگیا۔ اِس سے پہلے جمعرات کے روز بغداد میں امریکی جھنڈے اتارنے کی تقریب میں امریکی وزیرِ دفاع لیون پنیٹا نے شرکت کی اور لوگ تقریباً 10برس سے جاری وہ جنگ باضابطہ طور پر ختم ہوگئی جِس نےا مریکہ کے دو صدور کو امریکی فوجوں کے ’کمانڈر اِن چیف‘ کی حیثیت سے دیکھا۔

اخبار ’فلاڈیلفیا انکوائرر‘ اِس موقعے پر سوال اٹھاتا ہے کہ آخر اِس جنگ کا فاتح کون ہے؟ کیا تاریخ اِس میں امریکہ کو فاتح قرار دے گی یا اُسے بھی کوریائی اور ویت نامی جنگوں ہی جیسا ٹھہرایا جائےگا، جِن کے نتیجے میں دشمن اپنے مقام پر جما رہا اور فریقین میں سے کسی نے بھی ہتھیار نہیں ڈالے۔

اخبار لکھتا ہے صدر منتخب ہونے سے پہلے مسٹر براک اوباما جنگ کے ناقدین میں شامل تھے اور بدھ کے روز فورٹ برئیگ میں عراق سے واپس آنے والے فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے ، اُنھوں نے بغداد پر بمباری کے صدر جارج ڈبلیو بش کے فیصلے کے بارے میں صرف اتنا کہا کہ ’جنگ شروع کرنے سے جنگ ختم کرنا زیادہ مشکل ہے‘۔

اخبار لکھتا ہے، اگرچہ ری پبلیکن پارٹی کے سابق صدارتی امیدوار جان مکین یہ کہہ کر کہ عراق سے امریکہ کی واپسی ایران کو مضبوط کرے گی اور موجودہ صدارتی امیدواروں میں سے ایک، مِٹ رامنی کا یہ کہنا کہ اوباما بش کی دانشمندی پر فتح کا جشن منا رہے ہیں، عراق سے امریکی فوجوں کی واپسی کے صدر اوباما کے فیصلے کو ہدف ِ تنقید بنارہے ہیں۔ تاہم، خود صدر اوباما بھی Fort Braggمیں فوجیوں سے خطاب کے دوران خوشی کا کوئی بے پایاں اظہار نہیں کر رہے تھے، کیونکہ، اخبار کے مطابق، عراق میں امریکی سفارت خانہ اب بھی اتنا وسیع ہے کہ آئندہ برس محکمہٴ خارجہ ساڑھے چھ ارب ڈالرخرچ کرے گا اور اب تک عراق میں 800ارب ڈالر خرچ ہونے کے باوجود امریکی خوش ہیں کہ اُن کے فوجی گھر واپس آگئے ہیں، جو اُن کے لیے کرسمس کا سب سے بڑا تحفہ ہے۔

شاید کرسمس کا اِس سے بڑا تحفہ صدر اوباما اپنی قوم کو نہیں دے سکتے تھے۔ لیکن، کیا صدر اور خاتون اول کو کرسمس کارڈ بھی بھیجنے چاہئیں؟ کیا اُنھیں وہ مذہبی تہوار منانا چاہیئے جو سب امریکی نہیں مناتے؟

یہ سوال اٹھاتے ہوئے، اخبار ’لاس اینجلس ٹائمز‘ کے کالم نگار ڈیوڈ گرین برگ کا کہنا ہے کہ ہم امریکیوں کو اپنی مذہبی آزادی اور رواداری پر ناز ہے۔ اگرچہ، امریکہ کے تمام صدور اپنی تقریر پر Irvin Berlinکے گیت God Bless Americaکے مصرعے پر ختم کرتے ہیں، مگر زیادہ تر اپنے آباٴ کے اِس نظریے کی پابندی کرتے ہیں کہ چرچ اور ریاست کو باہم الگ الگ رہنا چاہیئے، لیکن پھر بھی وائٹ ہاؤس کی طرف سے کرسمس کی مبارکباد پر امریکہ میں شہری آزادیوں کی یونین کی طرف کسی غیض و غضب کا اظہار نہیں کیا گیا۔

اخبار لکھتا ہے شاید اِس کا سبب یہ ہے کہ ابتدا ہی سے کرسمس کے اِن پیغامات کو تہواروں کے موسم میں احترام ہی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور سب ہی خود کو اِس میں شامل سمجھتے ہیں۔

تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG