نیو یارک ٹائمز کی اطلاع ہے کہ امریکہ ایک سینیئر فوجی کمانڈر ایک ماہ کے اندر پاکستان روانہ ہورہا ہے اور اس نے اوباما انتظامیہ کے عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ اس سٹرٹیجک رشتے کو بحال کرنے کی طرف پہلا قدم ہے ، جو اب دو ماہ سے عملی طور پر منجمد ہے۔
اخبار کہتا ہے امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ ، جنرل جیمز میٹس پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ساتھ افغان سرحد پر اس واقعے پر، جس میں 24 پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے تھے، اور سرحد پر سیکیورٹی طریق کار پر بات چیت کرینگے ۔ تاکہ اس قسم کے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔ یہ ملاقات جمعرات کو شروع ہونے والی تھی ۔ لیکن اسے کم ازکم ایک ہفتے موخر کردیا گیاہے۔ تاکہ اس درمیان امریکہ کے ساتھ نئی سیکیورٹی پالیسی پر پاکستانی پارلیمنٹ میں بحث مکمّل ہو جائے ۔ اخبار کی اطلاع کے مطابق پاکستانی اور امریکی عہدہ دار پُر امّید ہیں کہ ان دونوں واقعات کے نتنجے میں کھلے عام اور درپردہ مذاکرات ہونگے۔ جن کی مدد سے دونوں ملکوں کے درمیان سٹرٹیجک رشتے کو پہلے کے مقابلے میں محدود خطوط کے اندر بحال کیا جائے گا
اخبار نے پاکستانی عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ دو مہینوں سے بند نیٹو کی رسد کا راستہ غالباً دوبارہ کھول دیا جائے گا۔ اخبار کی یہ بھی اطلاع ہے کہ محکمہء خارجہ نے انتظامیہ میں گشت کرنے والی اس تجویز کی حمائت کر دی ہے کہ 26 نومبر کو امریکی فضائی حملے میں پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت پر امریکہ باقاعدہ طور پر معافی مانگے ۔
اخبار کی اطلاع کے مطابق مذاکرات کے علاوہ جنرل میٹس کی مصروفیات میں یہ معلوم کرنا بھی ہوگا کہ فوجی تربیت ، اسلحے کی فروخت، اور سرحدپر رابطے کے مراکزکو بہتر بنانے کے سلسلے میں دو طرفہ تعلّقات میں کیا کُچھ ممکن ہے ۔ اس دورے کے نتائج پر منحصر ہوگا کہ آیا اس کے بعد دوسرے امریکی عہدہ دار ، بشمول خصوصی امریکی سفیر مارک گروس من بھی پاکستان کا دورہ کریں گے۔ ان دوروں کے تعیّن میں پاکستان کے تلاطم خیز سیاسی منظرنامے کا بھی بڑا دخل ہوگا۔ جس میں حکومت ، عدلیہ اور فوج کےارکان بیشتر وقت ایک دوسرے سے دست و گریبان رہے ہیں۔
اسی سلسلے میں نیو یارک ٹائمز میں آئی ایس آئی پر ایک علیٰحدہ تفصیلی رپورٹ کے مطابق اس ادارے کو متعدد عدالتی کاروائیوں کا سامنا ہے۔ جو فوج کے اس اہم ستون کے لئے ایک غیر معمولی چیلنج ہے۔ ایک کیس میں اس سے کہا گیا ہے کہ وہ ان سات مشتبہ عسکریت پسندوں کو عدالت میں پیش کرےجو 2010 ءسے اس کی تحویل میں ہیں۔ ایک اور کیس1990ء میں انتخابات میں دھاندلی کا ہے۔ جس میں 65 لاکھ ڈالر کے برابر رقم امیدواروں کو دی گئی تھی۔ اخبار کہتا ہے کہ ان کیسوں کی تہہ میں وہ اختیارات ہیں جو آئی ایس آئی کو شہریوں کو تحویل میں لینے اور انتخابات میں مداخلت کر نے کے لئے حاصل ہیں۔اوراسےبارہ ماہ کے ایک ایسے دورکے خاتمے پر اس کا سامنا کرنا پڑرہا ہےجب اسے پاکستان کے اندر امریکی کمانڈوز کے ہاتھوں اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر کڑی تنقید کا سامنا ہے۔ اور حالیہ ہفتوں میں اس سیاسی سکینڈل میں اس کے کردار پر بھی جس نے فوجی انقلاب کی افواہوں کو جنم دیا تھا اور اس کے اختیار کو ایک غیر متوقع حلقے سے چیلینج کا سامنا ہے۔ یعنی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ، جو اخبار کے خیال میں یہ ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں کہ وہ فوج سے بھی نمٹ سکتے ہیں۔
وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق، روسی وزیر خارجہ سرگے لارؤف نے شامی صدر بشارالاسد سے ملاقات کی ہے اور ا ن سے کہاہے کہ وہ ملک میں تشدّد کو ختم کرنے کے لئے فوری قدم اٹھائیں۔ جس پر صدر اسد نے کہا ہےکہ وہ سیاسی نمائندگی کو وسیع کرنے کے لئے ایک نئے آئین پر چند روز کے اندر ریفرنڈم کرانے کے لئے تاریخ کا اعلان کریں گے ،
اخبار کہتا ہے کہ روسی عہدہدارمغربی ملکوں پر الزام لگاتے آئے ہیں کہ وہ بجائے مذاکرات کو آگے بڑھانے کے اسد حکومت کا تختہ الٹنے کی فکر میں ہیں۔ مغربی لیڈروں کا کہنا ہے کہ اپنے مخالفین کے خلاف گیارہ ماہ سے جاری خوں ریز لڑائی کے بعد اس حکومت کا قانونی جواز ختم ہو گیا ہے۔ اخبارکا یہ بھی کہنا ہے کہ روسی لیڈر پوُٹن کوصدارت کا عہدہ دوبارہ حاصل کرنے میں جو دشواری ہو رہی ہے ، اس کے پیش نظرکریملن بین الاقوامی سطح پر اپنا دباؤ بڑھا رہا ہے۔