لاہور سے اغوا ہونے والے امریکی ماہر وارن وائین سٹائین کی جو وڈیو پیر کے روزانٹر نیٹ پر جاری ہوئی ہے ۔ اس پر’ انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹریبیون‘ کہتا ہے کہ اسے جہادیوں کی طرف سے اُس پبلسٹی کے جواب کی نظر سے دیکھا گیا ہےجو اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی پہلی برسی پر ہوئی ہے۔ اور یہ اس حقیقت کی براہ راست تصدیق تھی کہ ستّر سالہ وائین سٹائیں القاعدہ کی تحویل میں ہے ۔
مسلّح افراد کا ایک جتھہ انہیں لاہور سے پکڑ کر لے گیا تھا اور اب تین ماہ بعدالقاعدہ کے لیڈر ایمن الزواہری کا کہنا ہے کہ مسٹر وائین سٹائین کو اس شرط پر رہا کیا جا سکتا ہے کہ اوبامہ انتظامیہ ، افغانستان ، پاکستان ، صومالیہ اور یمن پر فضائی حملے کرنا بند کرے اور اس کے علاوہ سنہ1993 میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی بمباری کے مجرموں میں سے کئی ایک کو رہا کر دے۔
اس وڈیو میں مسٹر وائین سٹائین کو ایک میز کے پیچھے آلتی پالتی مار کر بیٹھے ہوئے اور صدر اوبامہ کو یُوںمخاطب کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ مسٹر پریذیڈنٹ، میری زندگی آپ کے ہاتھ میں ہےاگرآپ ان کے مطالبے مانتے ہیں تو میں بچ جاؤں گا۔اگر نہیں مانتےتو مارا جاؤں گا۔ ”
اخبار نےپاکستانی سیکیورٹی کے عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ مسٹر وائین سٹائین کو شائید شمالی وزیرستان میں نطر بند کیا گیا ہےجو افغان سرحد سے ملحق قبائیلی علاقے کا سب سے زیادہ خطر ناک حصّہ ہے اور اغوا کاری سرحد کی دونوں جانب طالبان اور القاعدہ کا سب سے بڑا کاروبار بن گیا ہے۔پاکستان میں غیر ملکی امدادی کارکنوں اور متموّل پاکستانیوں کو اغواء کیا جاتا رہا ہے۔اور اس وقت جو لوگ طالبان کے چُنگل میں ہیں،اُن میں پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کا بیٹا اور ایک جرمن امدادی ادارےکے دو یورپی کارکن شامل ہیں۔اخبار نے سیکیورٹی کے ماہرین کے حوالے سے بتایا ہے۔ کہ پاکستان کے بڑے شہروں سے مجرم جتھے یا کم تر درجے کے جہادی جتھےاعلیٰ مرتبت یرغمالیوں کو اغواء کرکے وزیرستان منتقل کرتے ہیں۔جہاں وہ پاکستانی طالبان یا القاعدہ کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں ۔
’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ امریکی عوام کی اکثریت نئے افغان امریکی سیکیورٹی معاہدے کے خلاف ہے جس پر صدر اوبامہ نے پچھلے ہفتے کابل میں دستخط کئے تھے۔ اخبار نے 27 اپریل سے لے کر4 مئی تک ایک استصواب کیا تھا ۔ جس میں اس معاہدے کی 63 فیصد نے مخالفت کی اور صرف 33 فیصد نے اسے سراہا۔
اس معاہدے کی رُو سےسنہ 2014 کے بعد بھی افغانستان میں ایک عشرے تک امریکی فوجیں موجود رہیں گی اور اربوں ڈالر کی مالی امداد افغانستان کو فراہم کی جائے گی۔ ایک انتخابی سال کے دوراںامریکیوں کو درپیش یہ ایک کلیدی مسلہ ہے اور دونوں پارٹیوں میں اس کی حمائیت کا فقدان تھا ۔ لیکن جیسا کہ اخبار کہتا ہےقومی سطح کے سیاست دانوں میں شاز ہی کوئی ایسا ہوگا جسے افغانستان کے بارے میں مروجّہ پالیسی سے اختلاف ہو۔ لہٰذا، افغان پالیسی پرعوام کی اس بیزاری سے فوری طور پر کوئی سیاسی اثر مرتّب ہونے کا امکان نہیں۔
اخبار کہتا ہے باوجودیکہ امریکہ کی یہ جنگ اب تک کی طویل تریں جنگ ہے ۔ اس کے خلاف اُس قسم کے جذبات نہیں بھڑکے ہیں جیسے عراق کی جنگ کے خلاف بھڑکے تھے ۔ اس کے خلاف سڑکوں پر مظاہرہ کرنے والوں کی تعداد نہائت قلیل تھی۔ اخبار کہتا ہے۔ کہ جنگ کی مخالفت کرنے والوں اور قبضہ تحریک والوں نے نیٹو کے اس اجلاس پہلے اجتماع کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔جس میں سنہ 2014 کے بعد افغانستان کی سیکیورٹی افوا ج پر اُٹھنے والے اخراجات کو پورا کرنے میں ہاتھ بٹانے کے لئے کہا جائے گا۔
’یو ایس اے ٹوڈے‘ کہتا ہے کہ پیر کو القاعدہ کی طیارے میں بم پھوڑنے ایک اور سازش کو جو ناکام بنا دیا گیا ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہری ہوا بازی پر القاعدہ کی خاص نظر ہے، غیر ملکی ایجنسیوں کے فراہم کردہ سُراغوں کی مدد سے ایف بی آئی نے جو سازش ناکام بنا دی ۔ اس میں ایک ایسے بم کا استعمال کیا جانا تھا جو یمن میں قائم القاعدہ کی شاخ کے استعمال میں ہے ۔
اس بم کا جسےایک سمندر ملک میں قبضے میں لیا گیا تھا ایف بی آئی میں تجزیہ کیا جا رہا ہے، القاعدہ کا منصوبہ یہ تھاکہ اسے بن لادن کی ہلاکت کی برسی پر جانگئے میں چھپا کرامریکہ جانے والے کسی مسافر بردار طیارے میں پھوڑا جائے ، صدر اوبامہ کے انسداد دشست گردی کےکے مشیر جان برینن کا کہنا ہے کہ بن لادن کی ہلاکت ایک سال بعدبھی القاعدہ امریکہ کے لئے خطرہ بنا ہوا ہے۔ اور اس کا بروقت انکشاف اس لئے ممکن ہوا ہے کہ بین الاقوامی شراکت داروں سےنہائت ہی قریبی تعاون برقرار ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: