رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: طالبان کے ساتھ مذاکرات


امریکی اخبارات سے: طالبان کے ساتھ مذاکرات
امریکی اخبارات سے: طالبان کے ساتھ مذاکرات

طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ وزیرخارجہ ہلری کلنٹن نے پچھلے سال فروری میں ایک بیان دے کر ہموار کی تھی، جس میں انہوں نے افغانستان کے سیاسی تصفیئے کا دائرہ کار متعین کیا تھا

طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کا چیلینج کےعنوان سےمعرو ف کالم نگار ڈیوڈ اِگنے ٹیس ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں رقمطراز ہیں کہ نئے سال کے آغاز پر امریکہ اور طالبان کےمابین جاری خفیہ سفارت کاری پر نگاہ ڈالیں تو بیشتر مبصّرین کو شبہ ہے کہ آیا یہ سفارت کاری نتیجہ خیز ثابت ہوگی۔ بلکہ، تعجب کی بات تو یہ ہےکہ یہ مذاکرات واقعتا ہو رہے ہیں۔

کالم نگار کا خیال ہے کہ ان مذاکرات کی راہ وزیرخارجہ ہلری کلنٹن نے پچھلے سال فروری میں ایک بیان دے کر ہموار کی تھی جس میں انہوں نے افغانستان کے سیاسی تصفیئے کا دائرہ کار متعین کیا تھا۔

اُس وقت اس حقیقت کا زیادہ نوٹس نہیں لیا گیا تھا کہ انہوں نے طالبان کی شمولیت کے لئے یہ سابقہ امریکی شرائط نہیں دہرائیں کہ وہ القاعدہ سے اپنا تعلق توڑیں اور افغا ن آیئن کی حمایئت کریں۔

جب ہلری کلنٹن نے یہ تقریر کی تھی اس وقت امریکی اور طالبان نمائندوں کے درمیان اس سے پہلے جرمنی اور قطر میں خفیہ ملاقات ہو چکی تھی۔ اور کالم نگار کے بقول اب تک ایسی نصف درجن ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔اب اگلا قدم قطر میں طالبان کے دفتر کا قیام ہے تاکہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع ہوں۔

کالم نگار کی اطلاع ہے کہ مذاکرات میں عام طور پر امریکی نمائندے مارک گروس من شرکت کرتے رہے ہیں۔ جنہوں نے رچرڈ ہول برُوک کی وفات کے بعدخصوصی سفیر کا عہدہ سنبھالا تھا ۔ طالبان کی طرف سے ملا عمر کے ایک انگریزی زبان دان مشیر طیّب آغا ان میں شرکت کرتے رہے ہیں۔

اِگنیشیس کا کہنا ہے کہ طالبان سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ عنقریب ایک بیان جاری کرنے والے ہیں جس میں وہ بین الاقوامی دہشت گردی کو مسترد اور افغانستان میں سیاسی عمل کی حمایت کریں گےیہ بالآخر القاعدہ کو ردّ کرنے اور افغان آئین کو تسلیم کرنے کی طرف پہلا قدم ہوگا ۔طالبان یہ بھی مان چکے ہیں۔کہ وہ اپنے قطر کے دفتر کو رنگروٹ بھرتی کرنے یا پراپیگنڈہ کرنے کے لئے استعمال نہیں کریں گے۔

پاکستان کے نازک کردار کے بارے میں کالم نگار کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے آئی ایس آئی کی جانب سے آغا کے رابطے بند نہیں ہوئے ہیں جس کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل احمد شُجاع پاشانے حقانی نیٹ ورک کے سربراہ کے بیٹے ابراہیم حقّانی کواگست کے مہینے میں متحدہ عرب امارات میں ایک امریکی عہدہ دارسے ملاقات کے لئے خود پہنچایا تھا ۔

لیکن، اس ملاقات سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا تھا۔اگر قطر میں طالبان کادفتر واقعی کھل گیا تو امریکی عہدیداروں کو امید ہے کہ کرزئی حکومت اور طالبان کےدرمیان اعتماد سازی کے اپنے اقدامات کا تبادلہ ہوگا ۔ مثلاً حکومت کی طرف سے محفوظ راہداری کے عوض خود کُش بم دھماکے کرنا بند کرنا۔ ۔کالم نگار کی نظر میں یہ شائد دور کی کوڑی لانے کی بات ہوگی ۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تمام جنگیں بالآخر اختتام کو پہنچتی ہیں۔

اخبار ’سی ایٹل ٹائمز‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ صدر اوبامہ کی طرف سے امریکی دفاعی بجٹ پر نظر ثانی ہوئی ہے۔وہ در اصل پینٹاگان کے بجٹ میں اُس بھاری کٹوتی کا جواز ہے، جس کی کافی عرصے سے ضرورت محسوس کی جاری تھی۔

اخبار کہتا ہے کہ فوج پر اٹھنے والے خرچ کی کانگریس میں دونوں پارٹیوں کی طرف سے چھان پھٹک ہو نی چاہئے۔ لیکن اس کو سیاسی غرض مندیوں کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہئے اور قوم کو خطروں سے نہیں ڈرانا چاہئے اور نہ ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنی چاہئے،کیونکہ اخبار کا اندازہ کہ امریکی مفادات کا تحفّظ کرنے کے لئے کافی سرمایہ دستیاب ہوگا۔

اخبار کہتا ہے کہ امریکہ اس معاہدے کا پابند ہے جس کی رو سے اسےاپنے جوہری اسلحہ خانے میں تخفیف کرنا ہے۔ اور سرمائے کی کمی کی وجہ سے جوہری ہتھیاروں کو نشانے تک پہنچانے کے نظام یعنی ڈلیوری سسٹم کے ایک حصّے میں کچھ تخفیف کرنی پڑے۔ البتہ آبدوزوں کے شعبے پر اس کا اثر پڑنے کا امکان نہیں۔ خاس طور پر اس وجہ سے کہ صدر اوبامہ ایشیا اور بحرالکاہل میں امریکہ کی زیادہ طاقتور موجودگی کا عہد کر چکے ہیں۔

’لاس اینجلس ٹائمز‘ کہتا ہے وقت آگیا ہے جب کالج کے نصاب کی کتابوں کی دستیابی اکیسویں صدی کے تقاضوں کی مطابقت میں ہوں۔

اخبار کہتا ہے کہ طالب علموں کو روائتی نصابی کتابوں پر اوسطاً ڈیڑھ سو ڈالر خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ استعمال شدہ کتابیں خریدنا ممکن نہ رہا، کیونکہ اساتذہ نصاب میں ردّو بدل کے پیش نظر نئی کتابو ں پر زور دیتے ہیں۔۔ لہٰذا اس کا حل آن لائن نصابی کتابیں ہیں۔ جن میں فوری طور پر تازہ ترین مواد کااضافہ کیا جاسکتا ہے ۔۔ اور جن پر عام کتابوں کے مقابلے میں بہت کم لاگت آتی ہے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG