افغان طالبان نے قطر میں اپنا ایک دفتر کھولنے اور امکانی امن مذاکرات کا جو اعلان کیاہے۔ اس پر نیو یارک ٹایمز ایک ادارئے میں کہتا ہے۔ کہ یہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اس پر نہ صرف قریب سے غور کیا جائےَ ۔ بلکہ اس کو شک کی نگاہ سے بھی دیکھا جائے۔
اخبار کہتا ہے یہ نہ بھولنا چاہئے کہ یہ جنگجؤوں کی وہی تنظیم ہے ۔ جس نے افغانستان پر ازمنہء وسطیٰ کے دور کی ایسی بربریت کے ساتھ حکومت کی۔ جس میں خواتین کو تعلیم اور طبی نگہداشت سے محروم رکھا گیا۔ یہ وہی تنظیم ہے۔جس نے ستمبر 2001 سے پہلے القاعدہ کو پناہ دی تھی۔ اور جو ابھی تک نیٹو فوجیوں کو ہلاک کر رہی ہے ۔ افغان عوام میں دہشت پھیلا رہی ہے اورانہیں ہلاک کر رہی ہے۔ لیکن اگر ایک ایسے سیاسی تصفیے کی موہوم سی بھی امید ہو ، جس کے بعد طالبان کے ظلم و بربریت کا دوبارہ دور دورہ نہ ہو۔ تو اس پر غور ہونا چاہئے۔
اخبار کہتا ہے کہ طالبان نے واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات کی خواہش ظاہر کی ہے لیکن کابل کے ساتھ نہیں۔اس پر اخبار کہتا ہے۔ کہ افغانوں کی شرکت کے بغیر کوئی مذاکرات ہو ہی نہیں سکتے اور اس نے اوبامہ انظامیہ کو مشورہ دیا ہے کہ ایک بین الاقوامی ثالث کا تقرّر کیا جائے۔ تاکہ افغانستان کے امور میں مداخلت کرنے والے ملکوں سمیت وسیع پیمانے پر ملکوں کو مذاکرات کی میز پر جمع کیا جائے۔
امریکی انتظامیہ کئی مہینوں سے مذاکرات میں اپنی دلچسپی کا اشارے دیتی آئی ہے ۔اور یہ بات ناقابل فہم ہے۔ کہ طالبان نے جواب دینے کے لئے موجودہ وقت کیوں چُنا۔ اس کی وجہ اخبار کے خیال میں یہ ہوسکتی ہے۔ کہ امریکی اور نیٹوفوجی کاروائی کی وجہ سے ان پرسخت دباؤ ہے ۔یا پھریہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ طالبان کو یہ امید ہے کہ وہ ان مذاکرات کو اپنی شرایط پر امریکی فوجوں کی جلد واپسی مجبور کرنےکے لئے استعمال کرسکیں گے۔ اخبار نے واشنگٹن پر زور دیاہے کہ اس کے اس اصرار میں سرِِ مو فرق نہیں آنا چاہئے۔ کہ طالبان القاعدہ کے ساتھ مکمّل قطع تعلّق کریں گے ، تشدّد سے توبہ کریں گے۔ اور افغان آئین اور تمام افغانوں کے سیاسی اور انسانی حقوق کا احترام کریں گے ۔
اور بہت سی تصفیہ طلب باتوں میں ایک یہ ہے کہ آیا دوسری انتہا پسند تنظیمیں خاص طور پر حقّانی گروپ مذاکرات کی میز پر آئیں گےاور آیا ان کے بغیر امن معاہدہ ہو سکے گا۔ اور آیا اُن کے پاکستانی مربّیوں کو سنجیدہ مذاکرات کے لئےآمادہ کیا جا سکتا ہے
اخبار کہتا ہے کہ اعتماد سازی کے اقدام کے طور پر واشنگٹن طالبان کی اس درخواست پر غور کر رہا ہے۔ کہ گوان ٹانمو کے قید خانے سے طالبان قیدیوں کو یا تو افغانستان کی قید میں یا پھر قطر منتقل کیا جائے۔ اخبار کہتا ہے کہ صدر اوبامہ نےجو عہدکر رکھاہے کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کا بیشتر حصہ 2014 کے آخر تک نکال لیا جائے گا۔ اس کا حصول طالبان کے ساتھ ایک سیاسی معاہدے کی صورت میں زیادہ آسان ہوگا۔ لیکن اس سے یہ بات یقینی ہو جانی چاہئے، کہ افغانستان امریکہ پر مزید حملے کرنے کا اڈّہ نہیں بنے گا۔ اور نہ دوبارہ طالباں ظلم و بربریت کی آماجگاہ بنے گا
اسی موضوع پر اخبار بالٹی مور سن کہتا ہے ۔کہ طالبان نے قطر میں اپنا دفتر کھولنے کا جو اعلان کیا ہے۔ اسے امن مذاکرات کی طرف پہلے قدم کی نگاہ سے دیکھا جائے گا ۔ جس کا مقصد طالبان اور حامد کرزئی کی حکومت کے مابین مصالحت کرانا ہے۔ اور جس کی عرصے سے کوشش جاری تھی۔ مذاکرات کی یہ سنجیدہ پیش کش طالبان کے کسی قسم کی بات چیت نہ کرنے کے سابقہ طرزعمل کے بالکل برعکس ہے
اخبار نے امریکہ اور اس کے افغان اتحادی کواحتیاط برتنے کا مشورہ دیا ہے کیونکہ ماضی میں امن کی ایسی کوششیں لا حاصل ثابت ہوئی ہیں۔اس میں سب سے المناک ستمبر کا وہ واقعہ ہے جس میں ایک شخص نے اپنے آپ کو ملا عمر کا ایلچی ظاہر کرکے افغان امن کونسل کےسر براہ برہان الدین ربّانی کواپنی پگڑی میں چھپائے ہوئے بم سے قتل کر دیا تھا
اخبارنےامریکی عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ طالبان مذاکرات شروع کرنے کے عوض یہ توقع کرتے ہیں کہ افغان اور نیٹو افواج کی تحویل میں سینکڑوں طالبان قیدیوں کو پہلے رہا کر دیا جائے گا، اگرچہ اس تنظیم نے ابھی تک اپنے مطالبات کی فہرست جاری نہیں کی ہے ۔ امریکہاور اس کے اتحادیوں کو ایسے خطرناک قیدیوں کو چھوڑنے میں مضمر خطروں کو ذہن میں رکھنا پڑے گا۔ جو دوبارہ میدان جنگ میں کود سکتے ہیں۔ طالبان سے یہ وعدہ لینا پڑے گا۔ کہ وہ تشدد سےدست بردار ہو گئے ہیں۔ اور وہ جمہوری عمل میں شریک ہو کر عورتوں کے حقوق اور دوسرے مذہبی اور نسلی حقوق کا احترام کریں گے۔اخبار کہتا ہے کہ امریکہ کو یہ احتیاط برتنی پڑے گی، کہ طالبان کی یہ تجویز کہیں اپنے قیدی چھڑانے کی کوئی نئی چال تو نہیں ہے
آڈیو رپورٹ سنیئے: