پاکستا ن کی سیاسی صورت حال پر ’واشگٹن پوسٹ‘ میں ایک طویل تجزیاتی مراسلہ چھپا ہےجِس کےمطابق صدر آصف علی زرداری نے دبئی کا جو ایک روزہ دورہ کیا ہے،تجزیہ کاروں کے مطابق اُس کا مقصد اپنےبارے میں افواہوں کی طرف لاپرواہی کا مظاہرہ کر نا تھا۔
اِس سے پہلے، سول حکومت اورفوج کے درمیان وزیر اعظم گیلانی کی طرف سے سکریٹری دفاع کی برطرفی کے بعد کی محاذ آرائی کے تناظر میں فوجی انقلاب کی افواہیں پھیلنی شروع ہوئی تھیں۔ یہ سکریٹری فوج کا ریٹائرڈ جنرل تھااور فوج نے ایک بیان میں وزیر اعظم کو انتباہ کیا تھا کہ اُنہوں نے فوج پرحال ہی میں جو نقطہ چینی کی تھی اُس کے نتائج ضرر رساں ہونگے۔
اخبارکہتا ہے کہ اس سارے ہنگامے کےپیچھے وہ میمو ہےجسے ایک پاکستانی امریکی تاجر منصور اعجاز نے امریکی محکمہء دفاع کو پہنچایا تھا اورجس میں امریکہ سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ پاکستان میں فوجی انقلاب کوروکنے اور فوج پر سویلین کنٹرول قائم کرنے میں مدد فراہم کرے۔
اخبار کو یقین ہے کہ یہ میمو حکومت پاکستان کی اعلیٰ ترین سطح کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔ اگرچہ اِس پر حکومت کی جانب سےقطعی لا علمی کا اظہار کیا گیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ ان ڈرامائی واقعات کےباوجود، عام طور پر یہ باور کیا جاتا ہے کہ فوج کا انقلاب برپا کرنے کی طرف میلان نہیں ہے اور نا ہی پاکستان کےجاندار ذرائع ابلاغ اس کے حق میں ہیں ۔ بلکہ، فو ج کی ترجیح یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس کا فیصلہ کرے اور اس میں اگر عدالت کو آئینی تقاضوں کوپورا کرنے کےلئے فوج کی امداد کی ضرورت ہوتو فوج اس کے لئے تیا ر ہے۔
اخبار نے واشنگٹن میں سینئر عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ فوجی انقلاب کا کوئی امکان نہیں ہےاور اس سے فریقوں میں سے کسی کے بھی مفادات کو کوئی فایدہ نہیں پہنچتا ۔ لیکن، اُنہوں نے یہ اعتراف کیا کپ انہیں پاکستان میں تیزی کے ساتھ بدلنے والے واقعات کے بارے میں آگہی نہیں ہے۔
اِن عہدہ داوں نے ان کا نام صیغہء راز میں رکھنےکی شرط پر یہ بھی کہا کہ مداخلت کرنے کی کسی بھی کوشش کا اُلٹا اثر پڑے گا،جس کی وجہ پاک امریکی تعلقات میں رواں کشیدگی بتائی گئی۔
اخبار کہتا ہے کہ اصل ٹکراؤ پیر کے روز ہوگا،جب حکومتِ پاکستان، صدر زرداری اور دوسرے اہل کاروں کے خلاف مقدمات دوبارہ کھولنے کے بارے میں اپنے موقّف کی وضاحت کرے گی۔ ان مقدمات کو دوبارہ نہ کھولنے کی بناء پرعدالت وزیراعظم کوبد دیانت قرار دے چُکی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس صورت حال سےنمٹنے کےلئےعدالت کو چھ متبادل دستیاب ہیں۔ ان میں مسٹر گیلانی کی برطرفی، توہین عدالت کے الزامات پر کاروائی کرنا ، اور ووٹروں سے اس کا فیصلہ کرانا شامل ہے۔
حکومت اور فوج کے مابین یہ اختلافات امریکہ اورپاکستان کےتعلقات میں بگاڑ کے پسِ منظر میں پیدا ہوئے ہیں، جس کی وجہ ایک پاکستانی سرحدی چوکی پر نیٹوبمباری سے 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت ہے۔
اِس پسِ منظر میں، اخبار کہتا ہے واشنگٹن میں وزیرخارجہ ہلری کلنٹن کی پاکستان کی نئی سفیر شیری رحمان کے ساتھ ملاقات سے معمولی سی پیش رفت ہوئی ہے، جس کے بعد مسز کلنٹن نے کہا کہ امریکہ ، پاکستان کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے اور انہیں مفید مطلب بنانے کی پالیسی پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہے
اخبار ’لاس ویگس سن‘ امریکہ کو رواں سال میں درپیش معاشی مسائل پر ایک ادارئے میں کہتاہے کہ حال ہی میں ملک میں اقتصادی شعبے میں بہتری کے آثار آنے لگے ہیں، لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ مشکل یہ ہے ، کہ رواں سال انتخابات کا سال ہے لیکن انتخابات کے انتظار میں بیٹھے رہنا ایک بڑی غلطی ہوگی۔
اخبار کہتا ہے کہ پچھلے سال ملک بے عملی کا شکار رہا، جس کی ایک وجہ اخبار کی نظر میں ایوان نمائندگان میں ری پبلکنوں کی بے عملی تھی ۔ اخبار کہتا ہے کہ یہ نہ بھولنا چاہئیے کہ جِن لوگوں نے یہ ملک تعمیر کیا تھا وہ اپنے نظرئے سے اتنے زیادہ نہیں چمٹے رہتے تھے کہ مصالحت کی راہ باقی نہ رہے۔ اخبار کہتا ہے کہ ملک کو تبدیلی کی ضرورت اِس وقت ہے۔ اس کے لئے گیارہ ماہ انتظار نہیں کرنا چاہئیے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: