وال سٹریٹ جرنل
اس ہفتے، مصر، لیبیا، یمن اور پھر دوسرے اسلامی ممالک میں امریکی سفارتی دفاتر پر جو حملے اور امریکہ کے خلاف جو مظاہرےہوئے ہیں اُن پر وال سٹریٹ جرنل میں امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر حسین حقّانی لکھتے ہیں، کہ ان مظاہروں کا محرک انٹرنیٹ پر آنے والاوُہ وڈیوہے ،جس میں اسلام اور پیغمبر اسلام کی اہانت کی گئی ہے۔ لیکن مسٹر حقّانی کہتے ہیں کہ بپھرے ہوئے ان ہجوموں کے تشدّ د اور حملوں کو اس صحیح تناظر میں دیکھنا چاہئے کہ مغرب کے خلاف عوام کو مشتعل کرنے کےپیچھے ان اسلام پسندوں کا یہ جذبہ کار فرما ہے کہ اسے اپنے لئےعوامی حمائت حاصل حاصل کرنے کے لئےاستعمال کیا جائے ، چنانچہ وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے اس وڈیو کی جو مذمّت کی ہے، اُس سے ، بقول مضمون نگار کے، وُہ نادانستہ طور پر ان انتہا پسندوں کے جھانسے میں آگئی ہیں، اور امریکہ کے لئے بہتر یہ ہوتا کہ غصّہ اس بات پر کیا جاتاکہ مصر اور دوسرے ملکوں میں امریکہ کے سفارتی دفاتر کا وہ احترام نہیں کیا گیا جس کے وہ مستحق ہیں۔
حسین حقّانی کہتے ہیں کہ اسلام کی بے حرمتی کا بہانہ بنا کر احتجاجی اجتماعات کرانااسلامی انتہا پسندوں کی عشروں سے حکمت عملی رہی ہے۔ ایران کے آیت اللہ امریکہ دشمنی کے بل بوتےپر بھر پُور انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے ، اور 1979 میں ایران جب اس انقلا ب سے گُذر رہاتھا تو پاکستان کے انتہاپسندوں نے یہ افواہیں پھیلا کر عوام کے جذبات بھڑکائے تھے کہ امریکیوں نے خانہ کعبہ پر زبردستی قبضہ کر لیا ہے۔اور پاکستان میں مشتعل ہجوم نے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کو نذر ٕ آتش کردیا تھا۔
سلمان رُشدی کے ناول کے خلاف فتوے کے بعد ، اور 2005 میں ڈنمارک کے ایک اخبار میں پیغمبر اسلام کے کارٹونوں کی اشاعت کے بعد جو پُر تشدّد مظاہرےہوئے تھے، وُہ فوری طور پر نہیں بلکہ جب ہوئے تھے جب اسلامی انتہا پسندوں نے خود اس کی تشہیر کی تھی ، تاکہ تشدد کا جو منصوبہ انہوں نے بنایا تھا اُس کا جواز پیدا کیا جائے۔مضمو ن نگار کا کہنا ہے کہ اس ساری بحث میں ان اسلامی انتہاپسندوں کے سیاسی عزائم کو نظر انداز کیا جاتا ہے ،۔ جن کے لئے اسلام کی شان میں کی جانے والی ہر گستاخی انہیں اپنا اُلّو سیدھا کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
حسین حقانی کہتے ہیں کہ یورپ اور شمالی امریکہ میں باہر سے آ کرجو لاکھوںمسلمان آباد ہوئے ہیں۔انہیں آزادئ مذہب سمیت تمام آزادیاں میسّر ہیں اور اس قسم کے بے حقیقت وڈیوز سے کہیں بھی کسی کو کوئی فرق نہ پڑتا۔ تا وقتیکہ یہ اسلامی انتہا پسند اپنی انتہا پسندی کو فروغ دینے کے لئے خود ہی اُن کی تشہیر نہ کریں۔ کیونکہ بقول مضمون نگار کے ، اصل مسلہ اہانت کا نہیں بلکہ مسلمان ملکوں میں سڑکوں پر جس تشدّد کا مظاہرہ ہوتا ہے، وُہ در اصل تین صدیوں سے مسلمان ملکوں کےاُس مسلسل تنزّل پر مایوسی کا اظہار ہےجس کے متوازی مغرب کی عسکری اور ، اقتصادی طاقت نئی نئی بلندیوں تک پہنچی۔
حسین حقّانی، جو آج کل بوسٹن یونیورسٹی میں حالات حاضرہ کے پروفیسر ہیں اور ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے سینیئر فیلو ہیں کہتے ہیں کہ آٹھویں صدی سے لے کر جن آٹھ صدیوں کے دوران مسلمان ترقی کی منزلیں طے کرتے رہے۔تاریخ میں کسی ایسے واقعے کا ذکر نہیں کہ انہوں نے کسی غیر مسلم کی طرف سے پیغمبر اسلام کی شان میں کسی گُستاخی پر غیر مسلموں پر حملے کئے ہوں۔
وُہ کہتے ہیں کہ موجودہ انتہا پسندوں کا مفاد اس میں ہے کہ مسلمانوں کی مظلومیت اور مغرب کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکائے رکھنا اور مسلمانوں کی معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی ناکامیوں سے توجُّہ ہٹائے رکھنا، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے 57 رکن ممالک کی آبادی دنیا کی مجموعی آبادی کا پانچوان حصّہ ہے ۔لیکن عالمی پیداوار میں ان کا حصّہ محض سات فی صد ہے۔ ایک ایسی تلخ حقیقت جس کا ان انتہااپسندوں کے پاس کوئی مداوا نہیں ہے۔
کرسیچن سائنس مانیٹر
اخبار کرسچن سائنس مانیٹر کہتا ہے کہ اسلام کے خلاف وڈیو منظر عام پر آنے کے بعد امریکہ میں قرآن میں عوام کی دلچسپی میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے ۔ اس وقت ببلٕکل لٹریچر سوسائٹی کی طرح قرآنی مطالعات کے لئے کوئی خود مختار ادارہ تو موجُود نہیں، لیکن اخبار کہتا ہے کہ یہ صورت حال عنقریب بدلنے والی ہے۔
اخبار نے یاد دلایا ہےکہ سلطنت عثمانیہ میں سنہ 1726 میں ایک فتوے کے زریعے کتابیں چھا پنے کی جب اجازت دی گئی ، تو قرآن کو اس میں شامل نہ کیا گیا۔ مشرق وسطیٰ میں ہر موضوع پر دھڑا دھڑکتابیں چھپتی رہیں لیکن قرآن کے نسخے ہاتھ سے ہی نقل ہوتے رہے، کیونکہ علماء کی رائے میں قرآن چھاپنے سے اس کی بے حرمتی ہوگی۔ لیکن اس کے بعد سے علماء کی رائے بدل گئی ہے اور اب قرآن غیر معمولی تعداد میں چھپ رہا ہے۔ صرف سعودی عرب کے سرکاری چھاپہ خانے سے سالانہ قرآن کے ایک کروڑنُسخے چھپتے ہیں۔ اسلامی دُنیا کے اندر قرآن کے مطالعے میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہو گیا ہے،اور نٕت نئی ویب سائٹسں وجود میں آ رہی ہیں۔ مغرب میں بھی دلچسپی میں زبردست اضافہ ہوا ہے یہاں امریکہ میں حالیہ برسوں میں قرآن کے انگریزی میں اکیس نئے ترجمے چھپ چُکے ہیں۔ اور اب ہنری لُیوس فونڈیشن نے ایک عطیے کا اعلان کیا ہے، جس کی مدد سے قرآنی مطالعات کی ایک بین الاقومی ایسو سی ایشن قائم کی جائے گی۔اخبار کہتا ہے کہ ایسےادارے کی نہ صرف سکالروں کو بلکہ عامتہ النّاس کو بھی ضرور ت ہے ،کیونکہ اس سے مختلف عقائد کے درمیان ایک دوسرے کا احترام بڑھتا ہے۔ انجیل مقدّس کے عالموں کو اسلام کی مقدّس کتاب کی اہمیت کا احساس ہے جس کے متن میں انجیل کی طرح حضرت آدم، حضرت ابراہیم،حضرت عیسیٰ اور حضرت عیسیٰ وغیرہ کاذکر آتا ہے۔
اس ہفتے، مصر، لیبیا، یمن اور پھر دوسرے اسلامی ممالک میں امریکی سفارتی دفاتر پر جو حملے اور امریکہ کے خلاف جو مظاہرےہوئے ہیں اُن پر وال سٹریٹ جرنل میں امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر حسین حقّانی لکھتے ہیں، کہ ان مظاہروں کا محرک انٹرنیٹ پر آنے والاوُہ وڈیوہے ،جس میں اسلام اور پیغمبر اسلام کی اہانت کی گئی ہے۔ لیکن مسٹر حقّانی کہتے ہیں کہ بپھرے ہوئے ان ہجوموں کے تشدّ د اور حملوں کو اس صحیح تناظر میں دیکھنا چاہئے کہ مغرب کے خلاف عوام کو مشتعل کرنے کےپیچھے ان اسلام پسندوں کا یہ جذبہ کار فرما ہے کہ اسے اپنے لئےعوامی حمائت حاصل حاصل کرنے کے لئےاستعمال کیا جائے ، چنانچہ وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے اس وڈیو کی جو مذمّت کی ہے، اُس سے ، بقول مضمون نگار کے، وُہ نادانستہ طور پر ان انتہا پسندوں کے جھانسے میں آگئی ہیں، اور امریکہ کے لئے بہتر یہ ہوتا کہ غصّہ اس بات پر کیا جاتاکہ مصر اور دوسرے ملکوں میں امریکہ کے سفارتی دفاتر کا وہ احترام نہیں کیا گیا جس کے وہ مستحق ہیں۔
حسین حقّانی کہتے ہیں کہ اسلام کی بے حرمتی کا بہانہ بنا کر احتجاجی اجتماعات کرانااسلامی انتہا پسندوں کی عشروں سے حکمت عملی رہی ہے۔ ایران کے آیت اللہ امریکہ دشمنی کے بل بوتےپر بھر پُور انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے ، اور 1979 میں ایران جب اس انقلا ب سے گُذر رہاتھا تو پاکستان کے انتہاپسندوں نے یہ افواہیں پھیلا کر عوام کے جذبات بھڑکائے تھے کہ امریکیوں نے خانہ کعبہ پر زبردستی قبضہ کر لیا ہے۔اور پاکستان میں مشتعل ہجوم نے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کو نذر ٕ آتش کردیا تھا۔
سلمان رُشدی کے ناول کے خلاف فتوے کے بعد ، اور 2005 میں ڈنمارک کے ایک اخبار میں پیغمبر اسلام کے کارٹونوں کی اشاعت کے بعد جو پُر تشدّد مظاہرےہوئے تھے، وُہ فوری طور پر نہیں بلکہ جب ہوئے تھے جب اسلامی انتہا پسندوں نے خود اس کی تشہیر کی تھی ، تاکہ تشدد کا جو منصوبہ انہوں نے بنایا تھا اُس کا جواز پیدا کیا جائے۔مضمو ن نگار کا کہنا ہے کہ اس ساری بحث میں ان اسلامی انتہاپسندوں کے سیاسی عزائم کو نظر انداز کیا جاتا ہے ،۔ جن کے لئے اسلام کی شان میں کی جانے والی ہر گستاخی انہیں اپنا اُلّو سیدھا کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
حسین حقانی کہتے ہیں کہ یورپ اور شمالی امریکہ میں باہر سے آ کرجو لاکھوںمسلمان آباد ہوئے ہیں۔انہیں آزادئ مذہب سمیت تمام آزادیاں میسّر ہیں اور اس قسم کے بے حقیقت وڈیوز سے کہیں بھی کسی کو کوئی فرق نہ پڑتا۔ تا وقتیکہ یہ اسلامی انتہا پسند اپنی انتہا پسندی کو فروغ دینے کے لئے خود ہی اُن کی تشہیر نہ کریں۔ کیونکہ بقول مضمون نگار کے ، اصل مسلہ اہانت کا نہیں بلکہ مسلمان ملکوں میں سڑکوں پر جس تشدّد کا مظاہرہ ہوتا ہے، وُہ در اصل تین صدیوں سے مسلمان ملکوں کےاُس مسلسل تنزّل پر مایوسی کا اظہار ہےجس کے متوازی مغرب کی عسکری اور ، اقتصادی طاقت نئی نئی بلندیوں تک پہنچی۔
حسین حقّانی، جو آج کل بوسٹن یونیورسٹی میں حالات حاضرہ کے پروفیسر ہیں اور ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے سینیئر فیلو ہیں کہتے ہیں کہ آٹھویں صدی سے لے کر جن آٹھ صدیوں کے دوران مسلمان ترقی کی منزلیں طے کرتے رہے۔تاریخ میں کسی ایسے واقعے کا ذکر نہیں کہ انہوں نے کسی غیر مسلم کی طرف سے پیغمبر اسلام کی شان میں کسی گُستاخی پر غیر مسلموں پر حملے کئے ہوں۔
وُہ کہتے ہیں کہ موجودہ انتہا پسندوں کا مفاد اس میں ہے کہ مسلمانوں کی مظلومیت اور مغرب کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکائے رکھنا اور مسلمانوں کی معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی ناکامیوں سے توجُّہ ہٹائے رکھنا، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے 57 رکن ممالک کی آبادی دنیا کی مجموعی آبادی کا پانچوان حصّہ ہے ۔لیکن عالمی پیداوار میں ان کا حصّہ محض سات فی صد ہے۔ ایک ایسی تلخ حقیقت جس کا ان انتہااپسندوں کے پاس کوئی مداوا نہیں ہے۔
کرسیچن سائنس مانیٹر
اخبار کرسچن سائنس مانیٹر کہتا ہے کہ اسلام کے خلاف وڈیو منظر عام پر آنے کے بعد امریکہ میں قرآن میں عوام کی دلچسپی میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے ۔ اس وقت ببلٕکل لٹریچر سوسائٹی کی طرح قرآنی مطالعات کے لئے کوئی خود مختار ادارہ تو موجُود نہیں، لیکن اخبار کہتا ہے کہ یہ صورت حال عنقریب بدلنے والی ہے۔
اخبار نے یاد دلایا ہےکہ سلطنت عثمانیہ میں سنہ 1726 میں ایک فتوے کے زریعے کتابیں چھا پنے کی جب اجازت دی گئی ، تو قرآن کو اس میں شامل نہ کیا گیا۔ مشرق وسطیٰ میں ہر موضوع پر دھڑا دھڑکتابیں چھپتی رہیں لیکن قرآن کے نسخے ہاتھ سے ہی نقل ہوتے رہے، کیونکہ علماء کی رائے میں قرآن چھاپنے سے اس کی بے حرمتی ہوگی۔ لیکن اس کے بعد سے علماء کی رائے بدل گئی ہے اور اب قرآن غیر معمولی تعداد میں چھپ رہا ہے۔ صرف سعودی عرب کے سرکاری چھاپہ خانے سے سالانہ قرآن کے ایک کروڑنُسخے چھپتے ہیں۔ اسلامی دُنیا کے اندر قرآن کے مطالعے میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہو گیا ہے،اور نٕت نئی ویب سائٹسں وجود میں آ رہی ہیں۔ مغرب میں بھی دلچسپی میں زبردست اضافہ ہوا ہے یہاں امریکہ میں حالیہ برسوں میں قرآن کے انگریزی میں اکیس نئے ترجمے چھپ چُکے ہیں۔ اور اب ہنری لُیوس فونڈیشن نے ایک عطیے کا اعلان کیا ہے، جس کی مدد سے قرآنی مطالعات کی ایک بین الاقومی ایسو سی ایشن قائم کی جائے گی۔اخبار کہتا ہے کہ ایسےادارے کی نہ صرف سکالروں کو بلکہ عامتہ النّاس کو بھی ضرور ت ہے ،کیونکہ اس سے مختلف عقائد کے درمیان ایک دوسرے کا احترام بڑھتا ہے۔ انجیل مقدّس کے عالموں کو اسلام کی مقدّس کتاب کی اہمیت کا احساس ہے جس کے متن میں انجیل کی طرح حضرت آدم، حضرت ابراہیم،حضرت عیسیٰ اور حضرت عیسیٰ وغیرہ کاذکر آتا ہے۔