اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے اداریے کا عنوان ہے: ’ شام میں اسد کی حکومت امریکہ کے لیے خطرہ ہے‘۔
اخبار لکھتا ہے شام میں انسانوں کا قتلِ عام جاری ہے۔ جمعرات جو سکیورٹی فورسز نے، اطلاعات کے مطابق، دو درجن مظاہرین کو گولی مار کر ہلاک کردیا اور کم از کم 11جمعے کے روز مار دیے گئے۔
لیکن، اخبار کا کہنا ہے کہ بشارالاسد کی حکومت کی یہ کارروائیاں صرف اپنی سرزمین تک محدود نہیں رہیں، بلکہ گذشتہ منگل کے روز ایف بی آئی نے ایک شخص کو گرفتار کیا جِس پر الزام ہے کہ وہ شامی انٹیلی جنس کے لیے اُن لوگوں کے بارے میں معلومات جمع کرنے کی سازش میں شریک تھا جو واشنگٹن اور امریکہ میں دیگر مقامات پر شامی حکومت کے خلاف مظاہرے کرتے ہیں۔
اخبار لکھتا ہے محمد انس ہیثم سوید شامی نژاد امریکی شہری ہے اور گذشتہ موسمِ گرما دمشق میں مسٹر اسد سے نجی طور پر ملاقات بھی کر چکا ہے، اور ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ، امریکہ واپس آکر اُس نے لوگوں کو مظاہرہ کرنے والوں کی آڈیو اور وڈیو ریکارڈنگ پر مامور کیا اور پھر یہ ریکارڈنگ شامی انٹیلی جنس کے حوالے کردی۔
چناچہ، اخبار لکھتا ہے کہ بظاہر سوید ایک عالمی آپریشن کا حصہ معلوم ہوتا ہے، کیونکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے کم از کم آٹھ ممالک میں 30سے زیادہ سرگرم کارکنوں کو یا تو شامی سفارت خانے نے ہراساں کیا یا شام میں اُن کے خاندان والوں کو گرفتار یوں اور ایذاٴ رسانی کا سامنا کرنا پڑا۔
اخبار لکھتا ہے، اگرچہ اسد حکومت اور واشنگٹن میں شامی سفارت خانہ اِس کی پُر زور تردید کرتا ہے، مگر سوید پر لگے الزامات ظاہر کرتے ہیں کہ اسد حکومت نہ صرف شامی عوام کے لیے بلکہ امریکہ اور دیگر ممالک میں بھی آزادی کی حمایت کرنے والوں کے لیے خطرہ ہے، اور وقت آگیا ہے کہ، مغربی حکومتیں بشارالاسد پر دباؤ ڈالیں اور اُنھیں اقتدار چھوڑنے پر مجبور کریں۔ لیکن، ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکہ افغانستان کے جھمیلے سے نکلے تو شاید اِس جانب مکمل توجہ دے سکے۔
جیسا کہ اخبار’ مرکری نیوز‘ اپنے اداریے میں لکھتا ہے اب وقت ہے کہ امریکہ افغانستان سے نکل آئے کیونکہ امریکہ اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ کے10برسوں میں پانچ کھرب ڈالر اور 1700امریکی جانیں گنوا کر جو حاصل نہیں کر پایا وہ فوجی قبضے سے بھی حاصل ہونے والا نہیں۔
اخبار کے مطابق، صرف اِس سال امریکہ نے افغانستان میں 117ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔
اخبار لکھتا ہے بش نے یہ جنگ اُدھار پر شروع کی تھی اور امریکی عوام سے کچھ تقاضا نہ کیا، بلکہ الٹا ٹیکسوں میں چھوٹ کی راہ اختیار کی جِس کا خمیازہ آج امریکی بھگت رہے ہیں۔
اخبار لکھتا ہے اگرچہ افغانستان سے نکلنا کوئی سادہ بات نہیں، نہ ہی امریکہ افغان عوام کو یوں بے یارو مدد گار چھوڑنا چاہتا ہے، مگر اب جب کہ فوج دہشت گردی کا خطرہ کم کر چکی، اسامہ بن لادن کو ہلاک کرچکی، تو اُسے وطن واپس آہی جانا چاہیئے۔
اخبار’ سین فرانسسکو کرانیکل‘ نے ایک سوال اپنے اداریے کا موضوع بنایا ہے۔ سوال ہے عجیب و غریب ایرانی سازش کتنی سنگین تھی۔ اخبار لکھتا ہے کہانی تقریباً ناقابلِ یقین ہے کہ پرانی کاروں کا ایک ڈیلر میکسیکمو کے منشیات کے ڈیلر کے ساتھ مل کر واشنگٹن کے ایک ریستوران میں امریکہ میں سعودی سفیر کو قتل کرنے کا منصوبہ بنائے۔
اخبار لکھتا ہے واشنگٹن کو قتل کے اس منصوبے کا لوگوں کو یقین دلانے پر خاصی محنت کرنی پڑ رہی ہے جب کہ شک کی نظر سے دیکھنے والے کہتے ہیں کہ ابھی اِس کی پرکھ باقی ہے۔
تاہم، اخبار کہتا ہے کہ ایک لاکھ ڈالر کی ادائگی اور فون کا ریکارڈ پریشانی کی بنیاد تو فراہم کرتے ہیں۔ دوسری جانب ایرانی حکو مت ہے جو مشرقِ وسطیٰ میں اپنا عمل دخل وسیع کرنے کے لیے ہتھیار، روپیہ اور اپنے ایجنٹ سمگل کرتی رہی ہے۔ مگر امریکی سرزمین پر قتل کا منصوبہ اور وہ بھی اتنے اناڑی کھلاڑیوں کے ذریعے؟ پیشہ ورانہ مہارت کو ظاہر نہیں کرتا۔ تاہم، اخبار اپنے اداریے کے آخر میں لکھتا ہے کہ انداز کچھ بھی ہو، کوئی دہشت گرد حملہ وہ بھی امریکی سرزمین پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
چناچہ، صدر اوباما ایران کے خلاف مزید سخت پابندیاں چاہتے ہیں جو روس اور چین جیسے ممالک کی مدد کے بغیر ممکن نہیں اور ایرانی تیل بھی دیگر ممالک کو امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے سے روک سکتا ہے۔ چناچہ، اخبار کے الفاظ میں اگر سعودی سفیر کو واشنگٹن میں قتل کرنے کا یہ منصوبہ حقیقی ثابت نہیں ہوتا تو امریکہ کے لیے ایران کو دنیا میں الگ تھلگ کرنا مشکل ہو جائے گا۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: