’نیو یارک ٹائمز‘ وسط مشرق کے تازہ ترین واقعات کے تناظُر پر ایک تجزئے میں کہتا ہے کہ فضا بارُود کی بُو سے پھر کیوں آلُودہ لگ رہی ہے، جب کہ امریکہ اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ کے دور سے گُذر رہا ہے۔
اس جنگ کے نتیجے میں اب تک عراق اور افغانستان میں 6300 امریکی فوجی ہلاک اور 46 ہزار زخمی ہوچُکے ہیں اور اس پر اب تک اُٹھنے والا خرچ تین ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے۔ لیکن اس کے نتائج نہ صرف مایُوس کُن بلکہ غیریقینی دِکھائی دے رہے ہیں۔ اس کے باوجُود ایران کے جوہری پروگرام کی وجہ سے جنگ میں کودنے کی باتیں حالیہ ہفتوں میں شدّت اختیار کر گئی ہیں۔ اور جہاں اسرائیل کی طرف سے امکانی فوجی کاروائی کی دہمکیاں بڑھتی جا رہی ہیں، اور امریکی سیاست دانوں کا لہجہ زیادہ جنگ جُویانہ ہوتا جا رہا ہے وہاں ایران کا رویّہ بیشتر بے باکانہ اور گُستاخانہ ہوتا جا رہا ہے
’واشنگٹن پوسٹ‘ کی اطلاع کے مطابق ا سر ا ئیل میں یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ جنگ ناگُزیر ہو گئی ہے، بلکہ اسرائیلی لیڈر اعلانیہ کہہ رہے ہیں کہ ایران کے خلاف فوجی کاروائی کرنا اب شائد ضروری ہو گیا ہے، تاکہ اس ملک کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جائے۔
’نیو یارک ٹائمز‘ کے مطابق اسرائیل کی اس دلیل کو امریکی سیاست میں قبولیت حاصل ہو رہی ہے کہ اگر کُچھ نہ کیا گیا اور ایران نے اپنی جوہری تنصیبات کو گہرائی میں چُھپا لیا ،تو پھر غیر ملکی بمبار طیارو ں کے لئے ان تک پہنچنا ناممکن ہو جائےگا ۔ ران پال کو چھوڑ کر ری پبلکن صدارتی امیدوار ایران کو دہمکانے اور اپنے آپ کو اسرائیل کا محافظ ثابت کرنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش میں ہیں۔
’واشنگٹن ٹائمز‘ میں اسی موضوع پر امیریکن فارِن پالیسی کے این برمن کہتے ہیں کہ وزیر دفاع لیون پینیٹا جیسے سرکردہ امریکی عہدہ دار کا خیال ہے کہ اسرائیل موسم گرما تک ایران کی جوہری تنصیبات پر بمباری کر سکتا ہے۔ امریکی حکومت کے اندر اور باہر زیادہ سے زیادہ افراد نے اسرائیلی کاروائی کےامکان کی جو بات کی ہے۔
وُہ ایران کے عزائم پر بڑھتی ہوئی بین ا لاقوامی تشویش کی علامت ہےاور اس بات کی بھی کہ ایران کو باز رکھنے کے لئے کس حد تک جانا ضروری ہوگا۔
مضمون نگار کے خیال میں یہ ایران کو جوہری طاقت بننے سے روکنے میں مغرب کی سٹرٹیجِک ناکامی کا بھی ثبوت ہے ۔ ایران کے خلاف سنگین تعزیرات لگانے کی باتیں تو سال ہا سال ہوتی رہیں ۔ لیکن جن اقتصادی اقدامات سےصحیح معنوں میں نقصان پہنچ سکتا ہے وہ کہیں حال ہیں میں کئے گئے ہیں اور ایران اب ان کا اثر محسوس کرنے لگا ہے۔ لیکن ان تعزیرات کی وجہ سے ایران کو کتنی ہی مالی دُشواریاں کیوں نہ ہوں، ایرانی قیادت کے اپنے جوہری عزائم سے باز آنے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ بلکہ، اس کے برعکس صدر احمدی نژاد نے حالیہ دنوں میں ٹیکنالوجی میں نئی کامیابیوں کے جو دعوے کئے ہیں وہ اس بات کا واضح اشار ہ ہے کہ ایرانی حکومت بم بنانے سے باز نہیں آ رہی،بلکہ اس طر ف اس کی پیش رفت جاری ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ عراق سے امریکی فوجوں کی واپسی مکمّل ہونے کے بعد افغانستان میں بھی ایسی ہی صورت حال پیدا ہو رہی ہے۔ جہاں وزیر دفاع لیون پینیٹا نے انکشاف کیا تھا ، کہ امریکہ کا اُس ملک سے بھی سنہ2013 تک اپنی فوجیں ہٹانے کا ارادہ ہے یعنی مقرّرہ وقت سے ایک سال قبل ۔
اس پس منظر میں مضمون نگار کے خیال میں وہائٹ ہاؤس کے عہدہ داروں کے ان دعووں کی کیا وقعت ہے کہ ایران کے جوہری عزائم سے نمٹنے کے لئے تمام ممکنہ اقدامات سے کام لیا جا سکتا ہے۔ ا س کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایران کے معاملے میں سفارت کاری پر بہت زیادہ دیر تک تکیہ کیا گیااور اس پر سنگین اقتصادی دباؤ بہت زیادہ تاخیر سے ڈالا گیا ہے۔
ایسو سی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ ہے کہ جیسے جیسے امریکی معیشت میں بہتری آتی جاتی ہے صدر اوباما کی مقبولیت کا گراف بھی اُوپر جا رہا ہے۔اخبار ’ ایکسپریس‘ میں اس رپورٹ کے مطابق رائے عامّہ کے ایک تاز ہ جائیزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ری پبلکن اور ڈیمو کریٹ دونوں اب یہ کہہ رہے ہیں کہ قوم اب صحیح سمت جا رہی ہے ۔ لیکن پٹرول کی قیمتیں بڑھ جانے سے آ گے چل کر اس میں گڑبڑ ہو سکتی ہے۔اسی لئے یہ کوئی اتفاقی امر نہیں ہے کہ صدر اوبامہ کی توجّہ اس ہفتے اس بات پر مرکُوز ہے کہ ملک کے اندر تیل اور گیس کی پیداوار کو بڑھایا جائے اور توانائی کے متبادل وسائیل کو فروغ دیا جائے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: