رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: مصر کا مستقبل اور 'سائبر' ہتھیاروں کی دوڑ


صدارتی انتخاب کے مرحلے سے عین قبل فوجی کونسل نے ایک نیا آئینی حکم نامہ جاری کیا جس کے ذریعے صدر سے تمام اہم اختیارات لے کر ان کے عہدے کو نمائشی بنا دیا گیاہے۔

مصر کے صدارتی انتخاب میں اخوان المسلمون کے امیدوار کی کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' نے لکھا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار مصر کو جمہوری طریقے سے منتخب صدر میسر آیا ہے۔

اپنے ایک اداریے میں اخبار لکھتا ہے کہ مصر کے فوجی حکمرانوں نے محمد مرسی کے فتح تسلیم کرکے ملک کو اس متوقع داخلی سیاسی بحران سے بچالیا ہے جو انتخابی نتائج میں رد و بدل یا انہیں کالعدم قرار دینے کی صورت میں پیدا ہوسکتا تھا۔

'واشنگٹن پوسٹ' لکھتا ہے کہ حالیہ پیش رفت مصر میں جمہوریت کی بنیاد بھی بن سکتی ہے اور عرب دنیا کے اس گنجان ترین ملک میں مزید سیاسی ابتری کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ آیا برسرِ اقتدار فوجی کونسل اور اسلام پسند جمہوری اصولوں پر مبنی اشتراکِ عمل کا کوئی طریقہ وضع کرپاتے ہیں یا نہیں۔

اخبار لکھتا ہے کہ گو کہ دونوں فریقوں نے تاحال اس بارے میں کوئی مثبت اشارے نہیں دیے ہیں، لیکن برسرِ اقتدار فوجی کونسل اور سابق صدر حسنی مبارک کے آمرانہ دور کی باقیات جمہوریت کی جانب سے اس پیش قدمی کو تباہ کرنے کے درپے رہی ہیں۔

ڈیڑھ برس قبل مبارک حکومت کے خاتمے کے بعد اقتدار سنبھالنے والی فوجی کونسل نہ تو مصر میں امن و امان بحال کرسکی ہے اور نہ ہی معیشت کی صورتِ حال میں بہتری آئی ہے۔ مصری فوجی حکمران ملک کی عیسائی آبادی اور دیگر اقلیتوں کے تحفظ میں بھی ناکام رہے ہیں اور انہوں نے ملک کے سیکولر اور آزاد خیال حلقوں کو بھی دیوار سے لگا رکھا ہے۔

صدارتی انتخاب کے مرحلے سے عین قبل فوجی کونسل نے ایک نیا آئینی حکم نامہ جاری کیا جس کے ذریعے صدر سے تمام اہم اختیارات لے کر ان کے عہدے کو نمائشی بنا دیا گیاہے۔ اس سے قبل سابق صدر مبارک کے دور میں نامزد ہونے والے ججوں نے ملک کی نومنتخب پارلیمان کو تحلیل کردیا تھا اور فوج نے ایک بار پھر ملک میں ہنگامی حالت کا قانون بحال کردیا تھا۔

'واشنگٹن پوسٹ' لکھتا ہے کہ ان حالات کے پیشِ نظر کئی مصریوں کو خدشہ تھا کہ فوجی کونسل صدارتی انتخاب میں سابق وزیرِاعظم احمد شفیق کی کامیابی کا اعلان کردے گی جو کہ 17 جون کو ہونے والے انتخاب میں واضح طور پر اخوان کے امیدوار سے شکست کھاگئے تھے۔

اخبار لکھتا ہے کہ مرسی کی فتح کے اعلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوجی کونسل اور اسلام پسندوں کے درمیان پسِ پردہ ہونے والے مذاکرات میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔

'واشنگٹن پوسٹ' نے اوباما انتظامیہ پر بھی زور دیا ہے کہ وہ مصر کی فوجی کونسل پر دبائو ڈالے کہ وہ تمام تر حکومتی اور انتظامی اختیارات اپنے وعدے کے مطابق 30 جون تک محمد مرسی اور ان کی انتظامیہ کے سپرد کردے اور سیاست میں مداخلت سے باز رہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ ضروری ہے کہ مصر میں ایک نئے آئین کی تشکیل کا عمل جلد از جلد شروع کیا جائے جس کے ذریعے ملک میں جمہوری قانون کی حکمرانی اور فوج پر سول حکومت کی بالادستی کو یقینی بنایا جاسکے۔

اخبار نے اخوان المسلمون پر بھی زور دیا ہے کہ وہ ملک کی دیگر جمہوریت پسند قوتوں کے ساتھ اتحاد بنائے اور ملک کی عیسائی آبادی اور سیکولر حلقوں کے خدشات دور کرے۔

اخبار 'نیو یارک ٹائمز' نے اپنے ایک مضمون میں انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے فوجی کردار اور 'سائبر وار' کے خطرات پر تشویش ظاہر کی ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف 'اسٹکس نیٹ' نامی وائرس کی تشکیل اور استعمال نے روایتی جنگ کو ایک نئے علاقے تک توسیع دیدی ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ کمپیوٹر وائرس تشکیل دینا اور انہیں کسی محاذ آرائی کی صورت میں استعمال کے لیے محفوظ رکھنا ایک عام بات ہے۔ لیکن امریکہ اور اسرائیل نے زمانہ امن میں ایرانی جوہری پروگرام پر کمپیوٹر وائرس کا حملہ کرکے اس نئی قسم کے ہتھیاروں کی ایک دوڑ شروع کردی ہے۔

'نیو یارک ٹائمز' لکھتا ہے کہ یہ عین قرین از قیاس ہے کہ اس کاروائی کے بعد انٹرنیٹ پر 'اسٹکس نیٹ' جیسے اور ان سے کہیں زیادہ مہلک سائبر ہتھیاروںکا طوفان آجائے گا۔

اخبار کے مطابق کیمیائی اور جوہری ہتھیاروں کے لیے تو عالمی سطح پر ضابطے موجود ہیں لیکن ان سائبر ہتھیاروں کی تیاری اور استعمال کے لیے تاحال کوئی قواعد و ضوابط وضع نہیں کیے گئے جس کے باعث ان کی ہلاکت خیزی اور نقصان کہیں زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے۔

'نیو یارک ٹائمز' کے مضمون نگار کے بقول ان ہتھیاروں کو ایک ذاتی استعمال کا لیپ ٹاپ ہیک کرنے سے لے کر کسی بھی ملک کے پورے مواصلاتی یا مالیاتی نظام کو غیر موثر کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

اخبار کے مطابق ان کمپیوٹر وائرسوں کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر جاری ہونے کے بعد یہ عموماً اپنے 'ڈویلپرز' کے کنٹرول سے نکل جاتے ہیں اور یوں اپنے ہدف کے علاوہ بھی بڑے پیمانے پر نقصانات کا سبب بن سکتے ہیں۔

'نیو یارک ٹائمز' لکھتا ہے کہ یہ 'سائبر ہتھیار" پلٹ کر امریکہ کا رخ بھی کرسکتے ہیں لہذا امریکہ کو ان کے استعمال کا طریقہ کار وضع کرنے کے لیے کسی بین الاقوامی معاہدے کی کوششیں کرنی چاہئیں اور اس ضمن میں ترجیحاً روس اور چین کے ساتھ فوری مذاکرات شروع کرنے چاہئیں۔

XS
SM
MD
LG