لیبیا کی تحریکِ آزادی کے لیے بین الاقوامی حمایت پر’ لاس اینجلیس ٹائمز‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ مغربی ملکوں کے طاقت کے صائب استعمال کی بدولت اِس ملک کی بغاوت کوعرصے تک قائم جابر حکومت سےجان چھڑانے کا موقع فراہم ہوا ہے۔ لیکن
اِس سے امریکی خارجہ حکمتِ عملی کے لیے ایک غیر یقینی مثال قائم ہوئی ہے۔
دوسرے ملکوں میں موجود قابلِ نفرت آمروں کے خلاف طاقت کا استعمال امریکی پالیسی بنانے والوں کے لیے مشکل سوال پیدا کرتا ہے۔
اگرچہ، امریکہ دنیا کا پولیس والا تو نہیں بننا چاہتا لیکن وہ جمہوری اقدار اور حقوقِ انسانی کی حمایت میں اُتنا ہی پُر عزم ہے۔ اِسی لیے وہ اکثر اپنے آپ کو ایسی صورتِ حال میں پاتا ہے جس میں اُس کا چارہٴ کار محدود اور ناخوشگوار ہوتا ہے اور جس میں وہ یا تو علیحدگی اختیار کر کے اِن جابروں کو اپنی رعایا پر ظلم کرنے کی اجازت دے سکتا ہے یا پھر مداخلت کرسکتا ہے اور امریکیوں کی جان جوکھوں میں ڈال سکتا ہے اور اِس طرح اِس بین الاقوامی تاثر کو تقویت پہنچا سکتا ہے کہ اُس ملک کو دوسروں پر حکمرانی کا حق پہنچتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ لیبیا میں اوباما انتظامیہ نے درمیانہ راستہ اختیار کیا۔ امریکہ نے باغیوں کو فضائی اور ڈرون طیاروں کی شکل میں محدود امداد فراہم کی جس کے بغیر باغیوں کو شکست ہو سکتی تھی۔
امریکہ نے یک طرفہ کارروائی کرنے سے احتراز کیا اور اُن یورپی ملکوں کی کاوشوں میں امدادی کردار ادا کیا جن کا لیبیا کے استحکام پر زیادہ کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔
امریکہ کے ایک بھی سپاہی نے لیبیا کی سرزمین پر قدم نہیں رکھا۔
اخبار کہتا ہے کہ لیبیا کی کامیابی کی وجہ سے ہمیں سہل انگاری کا شکار نہیں ہونا چاہیئے۔
قذافی کے زوال پر بیرونی دباؤ کا اتنا عمل دخل نہیں تھا جتنا کہ اُس کی حکومت کے کھوکھلے پن کا اور یہ فرض کرنا بیوقوفی ہوگی کہ اِس خطے کی باقی حکومتوں کو بھی اِسی طرح چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر شام میں بشار الاسد کی حکومت کو کم از کم اس وقت ایک طاقت ور فوج کی حمایت حاصل ہے جو برابر لوگوں کی سرکوبی کرتی جارہی ہے۔
ہلاک ہونے والوں کی تعداد 2200سے تجاوز کر چکی ہے ۔ اوباما انتظامیہ اور اتحادی ملکوں نے صدر اسد کو گدی چھوڑنے کا مشورہ دیا ہے اور شام کے خلاف تعزیرات بھی لگا دی ہیں۔
’لاس اینجلیس ٹائمز‘ کہتا ہے کہ بعض لوگ قذافی کے زوال کو شام کے خلاف ایسی ہی کارروائی کی ایک مثال سمجھیں گے۔ لیکن، اخبار کے خیال میں ایسا سمجھنا غلط ہوگا۔ طاقت کا استعمال صرف اُس وقت کرنا چاہیئے جب باقی تمام حربے ناکام ہوجائیں۔
شہرہٴ آفاق’ ایپل کمپیوٹر کمپنی‘ کے چیف ایگریکٹو افسر Steve Jobsعلالت کے سبب اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے ہیں۔
’نیو یارک پوسٹ‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ جابز اِس کمپنی کے بانیوں میں سے تھے جِن کی قیادت میں یہ کمپنی چھوٹے سے ادارے سے ترقی کرتے کرتے ایک دیو قامت کارپوریشن بن گئی ہے۔ اُن کا شمار صنعتی دور کے بڑی بڑی شخصیات میں ہوگا۔ اُن کے تخیل نے ایسی ایسی مصنوعات تخلیق کی ہیں جِن کے بارے میں لوگوں کا ابتدا میں یہ خیال تھا کہ اِن کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن جلدہی اُنھیں احساس ہوگیا کہ اُن کے بغیر زندہ نہیں رہا جاسکتا۔کون نہیں جانتا کہ اُن کی مصنوعات کی فہرست طویل ہے۔
ایپل کے Ipodکو ہی لیجئے جس نے موسیقی میں Digitalانقلاب برپا کردیا اور ایسا لگ رہا ہے کہ Ipodانفرمیشن ٹیکنالوجی میں ایک اور انقلاب پرپا کرنےکا۔
اخبار کہتا ہے کہ Jobsنے یہ کمال اکیلے ہی نہیں کیا۔ لیکن اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اُن کی عدم موجودگی میں یہ کمال ممکن نہیں تھا۔
اخبار’ ڈیٹرائیٹ نیوز‘ ایک اداریے میں لکھتا ہے کہ ریاست مشی گن کے شہریوں کو ریاست کی ایک اپیل کورٹ کے فیصلے کےبعد اِس عجیب و غریب صورتِ حال کا سامنا ہے کہ وہ قانونی طور پر جسمانی درد کو ہلکا کرنے کے لیے چرس کا استعمال تو کرسکتے ہیں لیکن چرس کی قانونی طور پر خریداری ممکن نہیں۔
عدالت کے فیصلے کے مطابق تقریباً 400کے قریب ڈسپینسریاں بند ہوجائیں گی اور چرس کا دوا کے طور پر استعمال کرنے والوں میں سے بیشتر اسے قانونی طور پر حاصل نہ کر سکیں گے۔ چناچہ، اخبار کہتا ہے کہ ریاست کے قانون ساز ادارے کو دوبارہ قانون مرتب کرنا پڑے گا تاکہ چرس کو دوا کے طور پر استعمال کرنے سے متعلق واضح رہنما اصول میسر ہوں۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: