نیو یارک ٹائمز کہتا ہے کہ امریکہ میں دونوں ری پبلکن اور ڈیموکریٹک حلقوں میں افغانستان کی جنگ کی حمائت میں بھاری کمی آئی ہے۔ اخبار نے تشدّداور ناکامی کے متعدد واقعات کے بعد سی بی ایس ٹیلیوژن کے ساتھ مل کر رائے عامّہ کا ایک جائزہ لیا ۔جس میں شرکت کرنے والوں میں سے 69 فی صد اس خیال کے حامی تھے کہ امریکہ کو افغانستان کی جنگ میں ہونا ہی نہیں چاہئے۔ حالانکہ صرف چار ماہ قبل ایسے افراد کا تناسُب 53 فی صد تھا ۔ اس دس سالہ جنگ سے اُن کی بیزاری اور بھی بڑھی ہوئی لگتی تھی جب اُن سے یہ سوال کیا جاتا کہ یہ جنگ کس ڈھب سے جاری ہے۔ اور 68 فی صد کا جواب ِ ، یا تو یہ تھا۔ کہ قدرے خراب ہے ۔ یا پھر یہ کہ بہت ہی خراب ہے ۔
نیو یارک ٹائمز کے اس سروے کے نتائج کم و بیش ویسے ہی ہیں ۔ جو دوسرے اداروں نے کئے ہیں ۔ مثلاً واشنگٹن پوسٹ اور اے بی سی نیوذ نے جو سروے کیا تھا ۔ اُس میں بھی ساٹھ فی صد کی رائے یہ تھی ۔ کہ افغانستان کی جنگ میں اُلجھنا ہی نہیں چاہئے تھا ۔ پِوتحقیقی مرکز کے عوامی جائزے سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ57 فی صدکا کہنا یہ تھا کہ جس قدر جلد ممکن ہو امریکہ کو اپنی فوجیں افغانستان سے وطن واپس بُلانی چاہئیں ۔ گیلپ اور یو ایس اے ٹوڈے کے جائزے میں 50 فی صد نے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ امریکہ کو افغانستان سے نکلنے میں جلدی کرنی چاہئے۔ اور اس قسم کے خیالات ری پبلکنوں اور ڈیموکریٹوں میں مُشترک ہیں۔ ری پبلکن حلقوں میں افغانستان کی جنگ کےلئے حمائت میں یہ گراوٹ اُن کی پارٹٰی کے لیڈرو ں کی بدلتی ہوئی سوچ کی عکّاس ہےجو پہلے روایتی طور پر ڈیموکریٹوں کے مقابلے میں جنگ کی زیادہ حمائت میں ہوتے تھے ۔ ایک ری پبلکن صدارتی امیدوار نُیوٹ گِنگرِچ نے تو اس ماہ کہہ دیا کہ افغانستان سے نکلنے کا وقت آ گیا ہے۔جب کہ رِک سینٹورم نے صدر اوبامہ کے مقرر کردہ وقت سے بھی پہلے فوجیں واپس بُلانے کی وکالت کی ہے
بین الاقوامی جوہری توانائی کے ڈئرکٹر جنرل یُو کی یا آما نو کا ایک مضمون اخبار کلیو لینڈ پلین ڈیلر میں چھپا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ اُن کے ادارےکو ایسے دو ہزار مصدّقہ واقعات کا علم ہے جن میں پچھلے 18 سال کے دوران جوہری اور دوسرے تاب کار مواد کا غیر قانونی سودا ہوا ہے۔ پچھلے سال مالدووا میں پولیس نے ایک کاروائی کی تھی جس کے نتیجے میں جوہری بم بنانے میں استعما ل کے لائق نہائت ہی افزُدہ یورینیم کی ایک مقدار قبضے میں کر لی گئی تھی اور جسے ایک فرد بیچنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ اِن غیر قانونی سودوں میں بیشتر ایسے ہوتے ہیں جن میں جوہری مواد نہیں بلکہ وُہ ریڈیو ایکٹِو یا تابکار مواد ہوتا ہے ۔ جس کا استعمال اسپتالوں، فیکٹریوں اور دوسری جگہوں میں ہوتا ہے۔اور جن کو اُس قسم کی حفاظت میں نہیں رکھا جاتا۔ جیسا کہجوہری تنصیبات کو میسّر ہوتی ہے۔
مضمون نگار کا کہنا ہے کہ اگر دہشت گرد کسی جوہری ری ایکٹر کو سیبوتاژ کرتے ہیں ۔ یا کسی گندے بم کا دہماکہ کرتے ہیں ۔ تو اس سے لوگ ہلاک اور زخمی ہونگے سراسیمگی اور آلودگی پھیلے گی او ر اقتصادی اور معاشرتی افرا تفری بھی پھیلے گی۔ اس صورت حال سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ عالمی لیڈر ایسے اقدامات کو اور مضبُوط کریں جن کی مدد سے جوہری اور دوسرا تابکار مواد غلط ہاتھوں میں جانے سے روکا جا سکے۔ جوہری حفاظت سے متعلق صدر اوباما نے جو پہلی عالمی کانفرنس بُلائی تھی اُس کے بعد سے اس شعبے میں پیش رفت ہوُئی ہے ۔لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ تما م ملک جوہری مواد سے متعلق کنوینشن میں ترمیم کی توثیق کریں۔جس کی رُو سے ملکوں کے لئے قانوناً لازمی ہو جاتا ہے۔ کہ وہ جوہری مواد کی حفاظت کریں ۔ نہ صرف جب اُسے استعمال یا ذخیرہ کیا جاتا ہے ۔ بلکہ اس وقت بھی جو اُسے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا رہا ہو۔
شمالی کوریا کے جواں سال نئے لیڈر کِم جان ان کی عملداری میں ملک کے حالات پر واشنگٹن ٹائمز میں ایک مضمون میں موت کی سزا دینے کے ایک نئے طریقے کا ذکر ہے۔ اس میں جنوبی کوریا کے ایک اخبار کے حوالے سے بتایا گیا ہےکہ کم جان ان کے والد اور سابق حکمران کم جان ال کے وفاتپرسوگ کے دوران ایک فوجی افسر شراب پیتے ہوئے پکڑا گیا ۔اس بے ادبی کی پاداش میں اُسے یہ انوکھی سزا دی گئ ۔ اُسے ایک جگہ کھڑا کرنے کے بعد ایک مارٹر سکواڈ نے اس کے پرخچے اُڑا دئے ۔ رپورٹ کے مطابق یہ شمالی کوریا کی فوج کے افسروں کی تطہیر ی کاروا ئی کا حصّہ تھا جو نئے حکمران کم جان ان نے شروع کر رکھی ہے ۔ جس میں 82 ملی میٹر مارٹر کی مدد سے 7 پونڈ وزنی گولے داغے جاتے ہیں جو گرنے کے ساتھ ہی 17 گز کے قُطر میں آنے والی ہر شے کو تہس نہس کر دیتا ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ اس سے ملتی جُلتی مثال 1857 میں ہندوستانی فوج کی بغاوت کے زمانے میں ملتی ہے۔ جب انگریزوں نے گرفتارہونے والے ہر باغی کو اسی طرح توپ دم کر دیا تھا۔