لندن میں افغانستان، پاکستان اور برطانیہ کے سربراہان حکومت کے درمیان افغانستان میں امن کے فروغ سے متعلق جو کانفرنس ابھی ابھی ختم ہوئی ہے، اُس پر ’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ اب جبکہ مغربی فوجیں اُس ملک سے اگلے سال تک نکل آنے کی تیاریاں کر رہی ہیں، طالبان کے ساتھ سیاسی مصالحت کی کوشش کی جارہی ہے، تاکہ اُس ملک کو دوبارہ خانہ جنگی کی دلدل میں جانے سے روکا جائے۔
چناچہ، ایک مشترکہ بیان میں تینوں ملکوں کے لیڈروں نے اگلے چھ ماہ کے دوران امن کے معاہدے کے مقصد کے حصول کے لیے ضروری قدم اُٹھانے کا عہد کیا ہے۔
لندن کے اِن مذاکرات کی خاص توجہ قطر میں طالبان کا ایک دفتر کھولنےپر مرکوز رہی، جسے افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے استعمال کیا جاسکے۔
اِس دفتر کے کھُلنے کےلیے ابھی کوئی وقت مقرر نہیں کیا گیا ہے اور ناہی طالبان نے کابل کے ساتھ امن مذاکرات کرنے کی حامی بھری ہے۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ کا کہنا ہے کہ لندن مذاکرات کا ایک مقصد یہ تھا کہ صدر حامد کرزئی کی یقین دہانی کرائی جائے کہ امریکہ یا پاکستان یا کوئی اور اُنھیں امن کے مرحلے سے علیحدہ نہیں کر رہا۔
مسٹر کرزئی اگلے سال اپنے عہدے سے سبکدوش ہو رہے ہیں اور اُنھیں اصرار ہے کہ اُنھوں نے جو اعلیٰ امن کونسل بنا رکھی ہے مصالحت کا عمل اُسی کونسل کی قیادت میں ہونا چاہئیے۔
اخبار کہتا ہے کہ باوجودیکہ افغان حکومت باربار پاکستان پر بغاوت کو اکسانے کا الزام دیتی آئی ہے، افغان عہدے دار مصالحت کےلیے پاکستان کے حالیہ اقدامات سے مطمئن ہیں۔ نومبر میں پاکستان نے کابل کی ایک پرانی درخواست پر عمل کرتے ہوئے طالبان کے متعدد لیڈر قید سے رہا کر دہے ہیں جِن کے ساتھ افغان حکومت مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔
افغانستان میں امریکہ کا کیا مشن ہے؟ اِس عنوان سے معروف تجزیہ کار ڈائیل میک مے نس ’ڈلس مارننگ نیوز‘ میں رقمطراز ہیں کہ بیشتر امریکی فوجیں مقررہ وقت کے مطابق جب اگلے سال کے اواخر تک افغانستان سے نکل آئیں گی تو وہاں جنگ ختم نہیں ہوئی ہوگی۔
بلکہ، افغان فوج اور پولیس برابر طالبان سے برسر پیکار ہوگی۔ حقانی کا دہشت گرد نیٹ ورک جس کا القاعدہ کے ساتھ پُرانا گٹھ جوڑ ہے، پاکستانی سرحد کے ساتھ ساتھ فعال ہوگا اور مقامی جنگی سردار مرکزی حکومت سے اقتدار کی جنگ میں برابر مصروف ہوں گے۔ اور آپ چاہیں یا نہ چاہیں، امریکہ کا اس کشمکش سے برآمد ہونے والے نتیجے میں بڑا کچھ داؤ پر لگا ہوگا۔
اور جیسا کہ صدر اوبامہ کہہ چکے ہیں، امریکہ یہ بات یقینی بنانا چاہتا ہے کہ القاعدہ پھر سے افغانستان کے اندر اپنے قدم نہ جما پائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اُس کو جوہری ہتھیار سے لیس پڑوسی ملک پاکستان کے استحکام کی بھی فکر کرنی پڑ رہی ہے اور جیسا کہ افغانستان کے لیے سابق امریکی سفیر رانلڈ نُیومن نے کہا ہے، ’ہم اس جنگ کو ختم نہیں کر رہے۔ ہم اس جنگ میں اپنی شمولیت گھٹا رہے ہیں‘۔
ڈائل میک مینس کہتے ہیں کہ واشنگٹن میں بیشتر بحث اس بات پر ہوئی ہے کہ امریکی فوجوں کو کتنی جلد افغانستان سے نکل آنا چاہئیے اور 2014ء کے بعد وہاں کتنی امریکی فوجیں پیچھے چھوڑ جانی چاہئیں۔
میک مینس کی نظر میں یہ سوال غلط ہیں۔ سوال یہ ہونا چاہیئے کہ امریکہ کے لیے کسی قسم کے نتائج کی توقع حقیقت پسندانہ ہوسکی ہے اور اُن کے حصول کا بہترین طریقہ کیا ہے۔
فوری طور پر اگلے سال کے آخر تک امریکہ تین چیزیں کرنا چاہتا ہے۔
افغانستان کی تین لاکھ 52ہزار سکیورٹی فورسز کی تربیت مکمل کرنا، کرزئی کے جانشین کو چُننے کے لیے معقول حد تک منصفانہ انتخابات منعقد کرنے میں افغانوں کی مدد کرنا اور وہ شرائط طے کرنا جن کے تحت 2014ء کے بعد کچھ امریکی فوجیں افغانستان میں موجود رہیں۔
محکمہٴدفاع نے ابتدا میں 15ہزار کی تجویز دی تھی، لیکن اس کے بعد تین ہزار یا نو ہزار کی تعداد زیر غور رہی ہے اور اخبار کے بقول، صدر اوبامہ اگلے چند ہفتوں میں اس کا فیصلہ کریں گے۔
چناچہ، ایک مشترکہ بیان میں تینوں ملکوں کے لیڈروں نے اگلے چھ ماہ کے دوران امن کے معاہدے کے مقصد کے حصول کے لیے ضروری قدم اُٹھانے کا عہد کیا ہے۔
لندن کے اِن مذاکرات کی خاص توجہ قطر میں طالبان کا ایک دفتر کھولنےپر مرکوز رہی، جسے افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے استعمال کیا جاسکے۔
اِس دفتر کے کھُلنے کےلیے ابھی کوئی وقت مقرر نہیں کیا گیا ہے اور ناہی طالبان نے کابل کے ساتھ امن مذاکرات کرنے کی حامی بھری ہے۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ کا کہنا ہے کہ لندن مذاکرات کا ایک مقصد یہ تھا کہ صدر حامد کرزئی کی یقین دہانی کرائی جائے کہ امریکہ یا پاکستان یا کوئی اور اُنھیں امن کے مرحلے سے علیحدہ نہیں کر رہا۔
مسٹر کرزئی اگلے سال اپنے عہدے سے سبکدوش ہو رہے ہیں اور اُنھیں اصرار ہے کہ اُنھوں نے جو اعلیٰ امن کونسل بنا رکھی ہے مصالحت کا عمل اُسی کونسل کی قیادت میں ہونا چاہئیے۔
اخبار کہتا ہے کہ باوجودیکہ افغان حکومت باربار پاکستان پر بغاوت کو اکسانے کا الزام دیتی آئی ہے، افغان عہدے دار مصالحت کےلیے پاکستان کے حالیہ اقدامات سے مطمئن ہیں۔ نومبر میں پاکستان نے کابل کی ایک پرانی درخواست پر عمل کرتے ہوئے طالبان کے متعدد لیڈر قید سے رہا کر دہے ہیں جِن کے ساتھ افغان حکومت مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔
افغانستان میں امریکہ کا کیا مشن ہے؟ اِس عنوان سے معروف تجزیہ کار ڈائیل میک مے نس ’ڈلس مارننگ نیوز‘ میں رقمطراز ہیں کہ بیشتر امریکی فوجیں مقررہ وقت کے مطابق جب اگلے سال کے اواخر تک افغانستان سے نکل آئیں گی تو وہاں جنگ ختم نہیں ہوئی ہوگی۔
بلکہ، افغان فوج اور پولیس برابر طالبان سے برسر پیکار ہوگی۔ حقانی کا دہشت گرد نیٹ ورک جس کا القاعدہ کے ساتھ پُرانا گٹھ جوڑ ہے، پاکستانی سرحد کے ساتھ ساتھ فعال ہوگا اور مقامی جنگی سردار مرکزی حکومت سے اقتدار کی جنگ میں برابر مصروف ہوں گے۔ اور آپ چاہیں یا نہ چاہیں، امریکہ کا اس کشمکش سے برآمد ہونے والے نتیجے میں بڑا کچھ داؤ پر لگا ہوگا۔
اور جیسا کہ صدر اوبامہ کہہ چکے ہیں، امریکہ یہ بات یقینی بنانا چاہتا ہے کہ القاعدہ پھر سے افغانستان کے اندر اپنے قدم نہ جما پائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اُس کو جوہری ہتھیار سے لیس پڑوسی ملک پاکستان کے استحکام کی بھی فکر کرنی پڑ رہی ہے اور جیسا کہ افغانستان کے لیے سابق امریکی سفیر رانلڈ نُیومن نے کہا ہے، ’ہم اس جنگ کو ختم نہیں کر رہے۔ ہم اس جنگ میں اپنی شمولیت گھٹا رہے ہیں‘۔
ڈائل میک مینس کہتے ہیں کہ واشنگٹن میں بیشتر بحث اس بات پر ہوئی ہے کہ امریکی فوجوں کو کتنی جلد افغانستان سے نکل آنا چاہئیے اور 2014ء کے بعد وہاں کتنی امریکی فوجیں پیچھے چھوڑ جانی چاہئیں۔
میک مینس کی نظر میں یہ سوال غلط ہیں۔ سوال یہ ہونا چاہیئے کہ امریکہ کے لیے کسی قسم کے نتائج کی توقع حقیقت پسندانہ ہوسکی ہے اور اُن کے حصول کا بہترین طریقہ کیا ہے۔
فوری طور پر اگلے سال کے آخر تک امریکہ تین چیزیں کرنا چاہتا ہے۔
افغانستان کی تین لاکھ 52ہزار سکیورٹی فورسز کی تربیت مکمل کرنا، کرزئی کے جانشین کو چُننے کے لیے معقول حد تک منصفانہ انتخابات منعقد کرنے میں افغانوں کی مدد کرنا اور وہ شرائط طے کرنا جن کے تحت 2014ء کے بعد کچھ امریکی فوجیں افغانستان میں موجود رہیں۔
محکمہٴدفاع نے ابتدا میں 15ہزار کی تجویز دی تھی، لیکن اس کے بعد تین ہزار یا نو ہزار کی تعداد زیر غور رہی ہے اور اخبار کے بقول، صدر اوبامہ اگلے چند ہفتوں میں اس کا فیصلہ کریں گے۔