سلیٹ نُما چٹانوں کی گہرائیوں میں قدرتی گیس کی جو بے پناہ مقدار امریکہ میں دریافت ہوئی ہے اُسے نکالنے کے لئے ایک طریقہ وضع کیا گیا ہے، جسے ’فریکینگ‘ کہتے ہیں۔
کُھدائی کی اِس ٹیکنالوجی میں حال ہی میں جو زبردست پیش رفت ہوئی ہے، اُس نے اتنی گہرائی میں جا کر گیس نکالنا ممکن بنا دیاہے، جہاں پہلے پہنچنا ممکن نہ تھا۔
چنانچہ، روایتی عمودی کُھدائی کے ساتھ ساتھ اُفقی کُھدائی سے یہ ممکن ہو گیا ہے کہ انتہائی دباؤ والا ’فریکنگ‘ مائع چٹان کے اندر بھیجا جائے۔ اُس سے اُس چٹان کے اندر نئی گذر گاہیں پیدا ہوتی ہیں۔ جہاں سے قدرتی گیس، روایتی رفتار کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ نکالی جاتی ہے۔ لیکن، فریکنگ کے اِس عمل کی وجہ سے پانی میں آلُودگی کی شکایات سامنے آئی ہیں، اور ماحولیاتی تحفّظ کا امریکی ادارہ تحقیقات کر رہا ہے کہ آیا ’ہائیڈرالک فریکنگ‘ پینے کے پانی کے وسائل پر اثر انداز ہو رہی ہے۔
فریکنگ کا عمل جب مکمّل ہوتا ہے تو اُس میں استعمال ہونے والے پانی کا 40 سے لے کر 70 فیصد پانی سطح پر واپس آجاتا ہے، جس کے معنی ہوتے ہیں لاکھوں گیلن گدلا پانی۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ اخبار کہتا ہے کہ اس طرح کے اربوں گیلن آلُودہ پانی کو ٹھکانے لگانے کا طریقہ وضع ہوگیا ہے جس کا سہرا دو ہندوستانی سائینس دانوں کے سر جاتا ہے۔ انُو راگ باجپائی اور پرکاش نرائین نے کیمبرج میسا چُوسیٹس میں ایک کمپنی شروع کی ہے، تاکہ یہ سسٹم اُن آئیل کمپنیوں کو فروخت کریں جو فریکنگ سے پیدا ہونے والے آلودہ پانی کو ٹھکانے لگانے کے لئے کسی سستے اور شفاف طریقے کی تلاش میں ہیں۔
اخبار کہتا ہےکہ انہوں نے اپنا یہ پراجیکٹ ’میساچوسیٹس انسٹی چیوُٹ آف ٹیکنالوجی‘ کے تہ خانے کی لیبارٹری میں شروع کیا تھا ۔
اخبار کہتا ہے کہ آئیل کمپنیاں دونوں سائینس دانوں کو ٹیکسس اور نارتھ ڈیکوٹا لے کر گئی ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ وہ کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا سمجھوتہ کرنے کے قریب ہیں اور ایک دو سال میں 100 ملازمین کی خدمات بھی حاصل کریں گے۔ باجپائی کے سر آلودہ پانی کوصاف کرنے کی جس ٹیکنالوجی کو دریافت کرنے کا سہرا ہے اُسے سائینٹفِک امیریکن میگزین نے سنہ 2012 کی اُن دس دریافتوں میں شمار کیا ہے جِن کی مدد سے یہ دنیا بدلتی ہے۔
’ واشنگٹن پوسٹ‘ کہتا ہے کہ یہ دونوں سائینس دان اعلیٰ تعلیم کے لئے طالب علم کاویزا لے کر امریکہ آئے تھے جو عنقرب ختم ہونے والا ہے۔ اور امریکہ کے ویزا کے کڑے قوانین کی وجہ سے شائد اُنہیں اپنی کمپنی ہندوستان یا کسی اور ملک میں منتقل ہونا پڑے۔ اگرچہ، اُن کی خواہش ہے کہ اُنہیں امریکہ میں ہی رہنے کی اجازت ملے۔
اخبار کہتا ہے کہ اِس وقت امی گریشن پر جو بحث امریکہ میں چل رہی ہے اُس کی زیادہ تر توجّہ ایک کروڑ دس لاکھ غیر قانونی تارکین وطن پر ہے، جب کہ ایم آئی ٹی اور سلی کان وادی ، کاروباری اورتعلیمی قائدین کی توجہ امیگریشن کے اُن قواعد پر مرکوز ہے جن سے اُن کی نظر میں امریکی معیشت کو خطرہ لاحق ہے، اور جن کے تحت امریکی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونے والےنہائت ہی ہُنر مند غیر ملکیوں کو ملک سے باہر نکالا جاتا ہے ۔
اخبار کہتا ہےکہ باجپائی اور نرائین کا ارادہ ہے کہ وُہ اپنی ایجاد کو بہتر بنائیں گے اور اسے بنا کر بیچنا شروع کریں گے اور کاروبار بڑھائیں گے۔ لیکن، گرین کارڈ حاصل کرنے کی بات آتی ہے تو ان کی حکمت عملی میں سائنس کا عمل دخل کم ہوجاتا ہے اور دُعا پر تکیہ بڑھ جاتا ہے۔
’بالٹی مور سن‘ کہتا ہے کہ انٹرنیٹ کا استعمال رفتہ رفتہ اس قدر بڑھ جایے گا کہ کوئی اس سے محروم نہ ہوگا ، جس طرح ہوا سے کوئی محرو م نہیں ہے ۔ بشرطیکہ، امریکہ کا مواصلاتی کمیشن اُن نشریاتی لہروں تک آزادانہ رسائی کی اجازت دے جو اس وقت کسی کے استعمال میں نہیں ہیں۔ اس طرح جو وائی فائی نیٹ ورکس پھیلیں گے اُس سے انسانی زندگی میں ایک انقلاب آئے گا اور معیشت میں وسیع پیمانے پر جدّت طرازی کی حوصلہ افزائی ہوگی ۔
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ ان لہروں تک یہ کمیشن کس حد رسائی کی اجازت دے گا۔ لیکن یہ اغلب ہے کہ اس سے وائر لیس انٹرنیٹ کی سروس فراہم کرنے والے اداروں کے لئے یہ ممکن ہو جائے گا کہ وُہ دُور اُفتادہ دیہی علاقوں تک یہ سہولت پہنچائیں، جب کہ شہری علاقوں میں اُسی طرح کے زیادہ وائی فائی نیٹ ورک کا قیام ممکن ہو جائے گا ، جیسے گُوگل نے نیو یارک کے ایک علاقے میں قائم کر رکھا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ جس ڈجِٹل دور سے ہم گُذر رہے ہیں اُس میں ہم عالمی سطح پر ایک دوسرے سے مسابقت کر رہے ہیں اور اقتصادی نقطہٴنظر سے امریکی کاروباری اداروں کو جدّت طرازی کے زیادہ مواقع فراہم کرنا صحیح سمت ایک اہم قدم ہے۔ اتنا ہی اہم جتنا کہ تمام امریکیوں کو اُن کی آمدنی سے قطع نظر معلومات تک زیادہ رسائی فراہم کرنا۔ ملک کے لئے اس کی اہم اخلاقی اور اقتصادی اہمیت ہے۔
کُھدائی کی اِس ٹیکنالوجی میں حال ہی میں جو زبردست پیش رفت ہوئی ہے، اُس نے اتنی گہرائی میں جا کر گیس نکالنا ممکن بنا دیاہے، جہاں پہلے پہنچنا ممکن نہ تھا۔
چنانچہ، روایتی عمودی کُھدائی کے ساتھ ساتھ اُفقی کُھدائی سے یہ ممکن ہو گیا ہے کہ انتہائی دباؤ والا ’فریکنگ‘ مائع چٹان کے اندر بھیجا جائے۔ اُس سے اُس چٹان کے اندر نئی گذر گاہیں پیدا ہوتی ہیں۔ جہاں سے قدرتی گیس، روایتی رفتار کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ نکالی جاتی ہے۔ لیکن، فریکنگ کے اِس عمل کی وجہ سے پانی میں آلُودگی کی شکایات سامنے آئی ہیں، اور ماحولیاتی تحفّظ کا امریکی ادارہ تحقیقات کر رہا ہے کہ آیا ’ہائیڈرالک فریکنگ‘ پینے کے پانی کے وسائل پر اثر انداز ہو رہی ہے۔
فریکنگ کا عمل جب مکمّل ہوتا ہے تو اُس میں استعمال ہونے والے پانی کا 40 سے لے کر 70 فیصد پانی سطح پر واپس آجاتا ہے، جس کے معنی ہوتے ہیں لاکھوں گیلن گدلا پانی۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ اخبار کہتا ہے کہ اس طرح کے اربوں گیلن آلُودہ پانی کو ٹھکانے لگانے کا طریقہ وضع ہوگیا ہے جس کا سہرا دو ہندوستانی سائینس دانوں کے سر جاتا ہے۔ انُو راگ باجپائی اور پرکاش نرائین نے کیمبرج میسا چُوسیٹس میں ایک کمپنی شروع کی ہے، تاکہ یہ سسٹم اُن آئیل کمپنیوں کو فروخت کریں جو فریکنگ سے پیدا ہونے والے آلودہ پانی کو ٹھکانے لگانے کے لئے کسی سستے اور شفاف طریقے کی تلاش میں ہیں۔
اخبار کہتا ہےکہ انہوں نے اپنا یہ پراجیکٹ ’میساچوسیٹس انسٹی چیوُٹ آف ٹیکنالوجی‘ کے تہ خانے کی لیبارٹری میں شروع کیا تھا ۔
اخبار کہتا ہے کہ آئیل کمپنیاں دونوں سائینس دانوں کو ٹیکسس اور نارتھ ڈیکوٹا لے کر گئی ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ وہ کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا سمجھوتہ کرنے کے قریب ہیں اور ایک دو سال میں 100 ملازمین کی خدمات بھی حاصل کریں گے۔ باجپائی کے سر آلودہ پانی کوصاف کرنے کی جس ٹیکنالوجی کو دریافت کرنے کا سہرا ہے اُسے سائینٹفِک امیریکن میگزین نے سنہ 2012 کی اُن دس دریافتوں میں شمار کیا ہے جِن کی مدد سے یہ دنیا بدلتی ہے۔
’ واشنگٹن پوسٹ‘ کہتا ہے کہ یہ دونوں سائینس دان اعلیٰ تعلیم کے لئے طالب علم کاویزا لے کر امریکہ آئے تھے جو عنقرب ختم ہونے والا ہے۔ اور امریکہ کے ویزا کے کڑے قوانین کی وجہ سے شائد اُنہیں اپنی کمپنی ہندوستان یا کسی اور ملک میں منتقل ہونا پڑے۔ اگرچہ، اُن کی خواہش ہے کہ اُنہیں امریکہ میں ہی رہنے کی اجازت ملے۔
اخبار کہتا ہے کہ اِس وقت امی گریشن پر جو بحث امریکہ میں چل رہی ہے اُس کی زیادہ تر توجّہ ایک کروڑ دس لاکھ غیر قانونی تارکین وطن پر ہے، جب کہ ایم آئی ٹی اور سلی کان وادی ، کاروباری اورتعلیمی قائدین کی توجہ امیگریشن کے اُن قواعد پر مرکوز ہے جن سے اُن کی نظر میں امریکی معیشت کو خطرہ لاحق ہے، اور جن کے تحت امریکی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونے والےنہائت ہی ہُنر مند غیر ملکیوں کو ملک سے باہر نکالا جاتا ہے ۔
اخبار کہتا ہےکہ باجپائی اور نرائین کا ارادہ ہے کہ وُہ اپنی ایجاد کو بہتر بنائیں گے اور اسے بنا کر بیچنا شروع کریں گے اور کاروبار بڑھائیں گے۔ لیکن، گرین کارڈ حاصل کرنے کی بات آتی ہے تو ان کی حکمت عملی میں سائنس کا عمل دخل کم ہوجاتا ہے اور دُعا پر تکیہ بڑھ جاتا ہے۔
’بالٹی مور سن‘ کہتا ہے کہ انٹرنیٹ کا استعمال رفتہ رفتہ اس قدر بڑھ جایے گا کہ کوئی اس سے محروم نہ ہوگا ، جس طرح ہوا سے کوئی محرو م نہیں ہے ۔ بشرطیکہ، امریکہ کا مواصلاتی کمیشن اُن نشریاتی لہروں تک آزادانہ رسائی کی اجازت دے جو اس وقت کسی کے استعمال میں نہیں ہیں۔ اس طرح جو وائی فائی نیٹ ورکس پھیلیں گے اُس سے انسانی زندگی میں ایک انقلاب آئے گا اور معیشت میں وسیع پیمانے پر جدّت طرازی کی حوصلہ افزائی ہوگی ۔
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ ان لہروں تک یہ کمیشن کس حد رسائی کی اجازت دے گا۔ لیکن یہ اغلب ہے کہ اس سے وائر لیس انٹرنیٹ کی سروس فراہم کرنے والے اداروں کے لئے یہ ممکن ہو جائے گا کہ وُہ دُور اُفتادہ دیہی علاقوں تک یہ سہولت پہنچائیں، جب کہ شہری علاقوں میں اُسی طرح کے زیادہ وائی فائی نیٹ ورک کا قیام ممکن ہو جائے گا ، جیسے گُوگل نے نیو یارک کے ایک علاقے میں قائم کر رکھا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ جس ڈجِٹل دور سے ہم گُذر رہے ہیں اُس میں ہم عالمی سطح پر ایک دوسرے سے مسابقت کر رہے ہیں اور اقتصادی نقطہٴنظر سے امریکی کاروباری اداروں کو جدّت طرازی کے زیادہ مواقع فراہم کرنا صحیح سمت ایک اہم قدم ہے۔ اتنا ہی اہم جتنا کہ تمام امریکیوں کو اُن کی آمدنی سے قطع نظر معلومات تک زیادہ رسائی فراہم کرنا۔ ملک کے لئے اس کی اہم اخلاقی اور اقتصادی اہمیت ہے۔