امریکی ریسرچ کونسل نے جمعے کو ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں آب وہوا کی عالمی تبدیلیوں اور قومی سلامتی کے باہمی تعلق کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرہ ارض کابڑھتا ہوا درجہ حرارت دنیا بھر کے معاشروں پر ایک نئی طرز کا سیاسی اورمعاشرتی دباؤ ڈال رہاہے ، اور اس خطرے کے مقابلے کے لیے امریکہ اور دیگر ممالک کو سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔
کانگریس کے نامزد کردہ تحقیقی گروپ کی رپورٹ میں کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا ہے یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے اور سائنس دانوں کی اکثریت کے خیال میں فضا میں کاربن گیسوں کے اخراج میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔
رپورٹ کے مطابق آب وہوا کی تبدیلیوں کے نتیجے میں سمندروں کی سطح مسلسل بڑھ رہی ہے، سیلابوں کی شدت اور تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، خشک سالی، جنگلوں میں آگ بھڑک اٹھنے کے واقعات اورانسانی جسم میں جراثیموں کی پرورش کے لیے سازگار حالات سے مجموعی طورپر سلامتی کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔
تحقیقی کمیٹی کے چیئرمین جان سٹائن برونر کا کہناہے کہ شدید موسمی حالات کے بارے میں یہ اندازہ لگانا ضروری ہے کہ وہ کہاں وقوع پذیر ہوں گے اور دنیا کے کن ممالک میں ان سے تباہی آسکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ خشک سالی اور سیلاب، افریقہ اور جنوبی ایشیائی خطو ں کے ان ممالک میں جہاں غربت عام ہے اور حکومتیں کمزور ہیں، بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور باہمی تنازعات کا سبب بن سکتے ہیں۔
رپورٹ میں آب وہوا کی تبدیلیوں سے متعلق معلومات اکھٹی کرنے کے لیے بین ا لاقوامی تعاون بڑھانے پر زور دیا گیا ہے۔ کمیٹی کے چیئر مین جان سٹائن کا کہناتھا کہ فی الوقت پاکستان اور بھارت بارشوں یا برف باری کے بارے میں اپنی معلومات امریکہ کو فراہم نہیں کررہے ، جب کہ ان معلومات کے ذریعے ایشیا میں سیلابوں اور خشک سالی کی پیش گوئیاں کی جاسکتی ہیں۔
جان سٹائن کا کہناتھا کہ ا مریکی فوج کو چاہیے کہ وہ آب و ہوا کی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے نئے خطرات کا اندازہ لگائے ، مثال کے طور پر یہ کہ بحیرہ منجمد شمالی میں برف کی سطح کم کیوں ہوتی ہے اور یہ کہ قدرتی وسائل تک رسائی کس طرح بین الاقوامی مسابقت یا تنازعے کا سبب بن سکتی ہے؟
رپورٹ میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ دنیا کے ممالک مستقبل میں کاربن گیسوں کے اخراج میں کیسے کمی کرسکتے ہیں اورکیسے امریکہ اور دنیا کے باقی ممالک آب و ہوا کی تبدیلیوں کے نتیجے میں ممکنہ تباہیوں کے واقعات کا بہتر طور پر مقابلہ کرسکتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرہ ارض کابڑھتا ہوا درجہ حرارت دنیا بھر کے معاشروں پر ایک نئی طرز کا سیاسی اورمعاشرتی دباؤ ڈال رہاہے ، اور اس خطرے کے مقابلے کے لیے امریکہ اور دیگر ممالک کو سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔
کانگریس کے نامزد کردہ تحقیقی گروپ کی رپورٹ میں کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا ہے یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے اور سائنس دانوں کی اکثریت کے خیال میں فضا میں کاربن گیسوں کے اخراج میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔
رپورٹ کے مطابق آب وہوا کی تبدیلیوں کے نتیجے میں سمندروں کی سطح مسلسل بڑھ رہی ہے، سیلابوں کی شدت اور تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، خشک سالی، جنگلوں میں آگ بھڑک اٹھنے کے واقعات اورانسانی جسم میں جراثیموں کی پرورش کے لیے سازگار حالات سے مجموعی طورپر سلامتی کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔
تحقیقی کمیٹی کے چیئرمین جان سٹائن برونر کا کہناہے کہ شدید موسمی حالات کے بارے میں یہ اندازہ لگانا ضروری ہے کہ وہ کہاں وقوع پذیر ہوں گے اور دنیا کے کن ممالک میں ان سے تباہی آسکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ خشک سالی اور سیلاب، افریقہ اور جنوبی ایشیائی خطو ں کے ان ممالک میں جہاں غربت عام ہے اور حکومتیں کمزور ہیں، بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور باہمی تنازعات کا سبب بن سکتے ہیں۔
رپورٹ میں آب وہوا کی تبدیلیوں سے متعلق معلومات اکھٹی کرنے کے لیے بین ا لاقوامی تعاون بڑھانے پر زور دیا گیا ہے۔ کمیٹی کے چیئر مین جان سٹائن کا کہناتھا کہ فی الوقت پاکستان اور بھارت بارشوں یا برف باری کے بارے میں اپنی معلومات امریکہ کو فراہم نہیں کررہے ، جب کہ ان معلومات کے ذریعے ایشیا میں سیلابوں اور خشک سالی کی پیش گوئیاں کی جاسکتی ہیں۔
جان سٹائن کا کہناتھا کہ ا مریکی فوج کو چاہیے کہ وہ آب و ہوا کی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے نئے خطرات کا اندازہ لگائے ، مثال کے طور پر یہ کہ بحیرہ منجمد شمالی میں برف کی سطح کم کیوں ہوتی ہے اور یہ کہ قدرتی وسائل تک رسائی کس طرح بین الاقوامی مسابقت یا تنازعے کا سبب بن سکتی ہے؟
رپورٹ میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ دنیا کے ممالک مستقبل میں کاربن گیسوں کے اخراج میں کیسے کمی کرسکتے ہیں اورکیسے امریکہ اور دنیا کے باقی ممالک آب و ہوا کی تبدیلیوں کے نتیجے میں ممکنہ تباہیوں کے واقعات کا بہتر طور پر مقابلہ کرسکتے ہیں۔