رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: جوہری تنازع، قزاقستان مذاکرات


ایرانی جوہری مذاکرات کار، سعید جلیلی
ایرانی جوہری مذاکرات کار، سعید جلیلی

تہران کی طرف سے اُمّید شکن اشارے مل رہے ہیں اور ایران نے یورنیم کی افزودگی کے لئے اپنی سب سےبڑی تنصیب میں اعلیٰ ٹیکنالوجی والی مشینیں نصب کرناشروع کی ہیں جن میں ری ایکٹر کے ایندھن کی پیداوار بڑھانے کی صلاحیت ہے


ایران کے جوہری پروگرام پر قزاقستان میں جو مذاکرات ہونے والے ہیں اور جن میں ایران کے علاوہ امریکہ، روس، چین، برطانیہ اور فرانس شرکت کریں گے۔

اُس سے قبل ’سی بی ایس ٹیلی وژن‘ کے مطابق، تہران کی طرف سے اُمّید شکن اشارے مل رہے ہیں اور ایران نے یورنیم کی افزودگی کے لئے اپنی سب سے بڑی تنصیب میں اعلیٰ ٹیکنالوجی والی مشینیں نصب کرنا شروع کی ہیں، جن میں ری ایکٹر کے ایندھن کی پیداوار بڑھانے کی صلاحیت ہے۔

ایران کا اصرار ہے کہ وُہ جوہری ہتھیار بنانے کے پروگرام پر عمل پیرا نہیں ہے بلکہ، یورینیم کی افزودگی یا تو ری ایکٹر کے لئے ایندھن تیار کرنے کے لئے یا پھر طبّی مقاصد کے لئے کر رہا ہے جس کی بین الاقوامی قانون میں اجازت ہے، لیکن ’سی بی ایس‘ کے بقول کئی ملک اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، کیونکہ 1980ءکے عشرے میں جب اُسے اپنے یورینیم افزودہ کرنے کے پروگرام کے لئے حمایت حاصل نہ ہو سکی تو اُس نے خفیہ طور پر یہ سر گرمی جاری رکھی۔

حتیٰ کہ، ایک عشرے قبل اس کی اس سرگرمی سے پردہ اُٹھ گیا۔ حال ہی میں تجویز کیا گیا تھا کہ اگر وُہ یورینیم کی افزودگی روک دے تو اس کے عوض اُسے باہر سے ایندھن فراہم کیا جائے گا۔ لیکن، یہ کوشش ناکام ہو گئی اور اس کے لئے طرفین نے ایک دوسرے کو ذمّہ دار ٹھہرایا اور اب ماہرین کا اندازہ ہے کہ ا یران کے پاس کئی بموں کے لئے کافی افزودہ یورینیم جمع ہو گیا ہے، بشرطیکہ، اس کو مزید افزودہ کیا جائے۔

’سی بی ایس‘ کہتا ہے کہ زیادہ افزودہ یورینیم کے بارے میں تشویش کے پیش نظر یہ چھ ملک آہستہ آہستہ ایران کےخلاف تعزیرات نرم کرنے سے متعلّق ایران کے مطالبے کو ماننے کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ لیکن، اس کے عوض ایران کا مطالبہ ہے کہ پہلے تعزیرات میں نرمی کی جائے۔

’سی بی ایس‘ کہتا ہے کہ چھ طاقتوں کے ساتھ مذاکرات میں ایران کےطرز عمل سے ایسا لگ رہا ہے جیسے وُہ طاقت کی پُوزیشن میں ہے۔

ایران کے رُوحانی پیشوا، آیت اللہ علی خامنائی نے حال ہی میں دعویٰ کیا ہے کہ ایران بم تو نہیں بنانا چاہتا، لیکن اگر وُہ چاہے تو وُہ بم بنا سکتا ہے۔ اور امریکہ چاہے بھی تو وُہ کسی طور بھی ایرانی قوم کو ایسا کرنے سے باز نہیں رکھ سکتا۔

’سی بی ایس‘ نے مانیٹری انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل سٹڈیز کے تجزیہ کار پروفیسر یوسف بٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ قانونی طور پر ایران کو افزودگی کا حق حاصل ہے۔ اِس لئے اگر یہ چھ طاقتیں ایران سے اپنا مطالبہ منوانا چاہتی ہیں تو اُنہیں ایران کے خلاف تعزیرات ختم کرنے پر غور کرنا چاہئیے۔

’لاس انجلس ٹائمز ‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ واشنگٹن میں یہ تصوّ ر زور پکڑ رہاہے کہ وفاقی عدالتوں کا یہ فیصلہ کرنے میں کوئی کردار ہونا چاہئیے کہ آیا حکومت کو سمندر پار ایسے امریکی شہریوں کو ہلاک کرنے کی اجازت ہونی چاہئیے، جن کا القاعدہ کے ساتھ گٹھ جوڑ ہو۔

سی آئی اے کے ڈئریکٹر عہدے کے لئےنامزد امید وار جان برنن کی سماعتوں کے دوران انٹلی جنس کمیٹی کی سربراہ سینیٹر فائین سٹائین نے کہا تھا کہ ایک تجویز پر غور کیا جائے گا کہ آیا ایک ایسی عدالت قائم کی جائے جوامریکی ڈرون طیاروں کے استعمال کا جائزہ لے۔

اخبار کہتا ہے کہ اب تک پاکستان اور یمن میں ان ڈرون طیاروں کے حملوں میں جو ہزاروں افراد ہلاک کئے گئےہیں وُہ سب کے سب غیرملکی تھے اور اُن میں سے بعض بے گُناہ راہ گیر بھی شامل ہیں ۔ چنانچہ، اس مجوّزہ قانون کی بدولت ان غیر ملکیوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔

اخبار کہتا ہے کہ اب تک اِن حملوں میں صرف ایک امریکہ شہری کو ہلاک کیا گیا ہے۔ انور اولکی کو جانتے بُوجھتے ہوئے اُس کی اپنی حکومت نے یمن میں سنہ 2011 میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک کیا تھا۔اور اس کے ساتھ القاعدہ کا ایک ڈھنڈورچی سمیر خان بھی مارا گیا تھا۔ امریکی حکومت کا کہنا تھا کہ نیو میکسیکو میں پیدا ہونے والے انور اولکی نے جزیرہ نما عرب میں القاعدہ کے لئے کام کرنا شروع کر دیا تھا اور وُہ امریکیوں کے لئے ایک خطرہ بن گیا تھا۔

اِن سماعتوں کے دوراں فائین سٹائین کا کہنا تھا کہ انٹلی جنس پر نظر رکھنے والی ایک عدالت قائم کی جا سکتی ہے ، یا اسی طرح کی ایک عدالت ان لوگوں کے لئے قائم کی جاسکتی ہے جنہیں نشانہ بنا کر ہلاک کرنا مقصود ہو۔

اخبار کہتا ہے کہ اگر ایسی عدالت قائم کی گئی تو اُس کے ججوں کو زیادہ سنگین نوعیت کےمعیار مقرر کرنے پڑیں گے۔ اِسی قسم کے جیسے کہ اولکی کے خاندان والوں نے تجویز کئے تھے جب اُس نے ایک وفاقی جج سے اُس کا نام ہلاک کئے جانے والوں کی فہرست نکالنے کی ناکام التجاٴ کی تھی۔
XS
SM
MD
LG