امریکی اخبارات میں ملالہ یوسف زئی کو برمنگھم کے اُس اسپتال سے جہاں وہ طالبان شدّت پسندوں کے ہاتھوں سر میں شدید زخمی ہونے کے بعد زیر علاج رہیں، فارغ ہونے کی خبر تصویر کے ساتھ چھپی ہے۔
اور ’لاس انجلس ٹائمز ‘ کے مطابق، جب وُہ اسپتال سےباہر آ رہی تھی تو وہ ہلکا خاکستری لباس اور کڑھا ہوا دوپٹہ پہنے ہوئے تھی۔
ایک نرس نے اُسے تھاما ہوا تھا اور وہ دروازے سے نکلتے ہوئے ہاتھ لہرا تے ہوئے وہاں سے رخصت ہوئی۔
ابھی اُس کا علاج مکمل نہیں ہوا ہے اور اُسے اسپتال کے ایک بیان کے مطا بق، لگ بھگ ایک ماہ بعد دوبارہ داخل ہونا ہے،تاکہ مکمل صحت یابی کے لئے اُس کی کھوپڑی کی سرجری کی جا سکے۔
اسپتال کے میڈیکل ڈئرئکٹر ڈیوڈ راسر نے ملالہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اُس کا علاج جن لوگوں کے ہاتھ میں تھا ، اُن کے ساتھ اس نے بڑی محنت کی اور اس طرح اس کی صحت یابی میں بہت اچھی پیش رفت ہوئی ہے ۔
’لاس انجلس ٹائمز ‘کہتا ہے کہ اس پندرہ سالہ لڑکی نےطالبان کے خلاف آواز بُلند کی جو لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت کرتے ہیں اور جنہوں نے اُس کو دوبارہ نشانہ بنانے کی دھمکی دے رکھی ہے۔ ملالہ کی توجّہ دنیا بھر کی عورتوں اور لڑکیوں پر ہے جو ستم جُو حکومتوں کے تحت رہتے ہوئے تعلیم اور دُوسری معاشرتی آزادیوں کے لئے جد و جہد کر رہی ہیں۔
براک اوبامہ کے دوسری مرتبہ صدر منتخب ہونے کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا ہے جِس کے لئے جمعے کے روز نائب صدر جو بائڈن نےکانگریس کے مشترکہ اجلاس کی صدارت کی اور ایوان اور سینیٹ کے چار ارکان نےباری باری ریاستی دارالحکومتوں میں نومبر کے صدارتی انتخاب میں ڈالے گئے ووٹوں کےمیزان کا اعلان کیا ۔ اس کے مطابق صدر اوبامہ کو الیکٹورل کالج کے ووٹوں میں سے کُل 332 ووٹ ملے۔ یعنی، صدارت حاصل کرنے کے لئے مطلوبہ 270 ووٹوں سے کہیں زیادہ۔ اس کے برعکس ریپبلکن مٹ رامنی کو کُل 206 ووٹ ملے۔
’نیو یارک ٹائمز‘ کی رپوٹ ہے کہ امریکہ میں اس وقت لوگ ٹیلی وژن سیٹ، ائر کنڈیشنر اور بجلی کی ایسی ہی مصنوعات کا پہلے سے کہیں زیادہ استعمال کر رہے ہیں ، لیکن تعجُّب کی بات یہ ہے کہ اُن کے بجلی کے استعمال میں مُشکل ہی سے کوئی اضافہ ہوا ہے،، اور یہ بجلی پید ا کرنے والی کمپنیوں کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔
اندازہ لگایا گیاہے کہ سنہ 2040 تک امریکہ میں صنعتی صارفین کی بجلی کی مانگ میں سالانہ اعشاریہ چھ فی صد اضافہ ہوگا اور گھریلو صارفین کی مانگ میں اعشاریہ سات فی صد ۔ یہ صورت حال پچھلی صدی سے بالکل مختلف ہے۔
اس دوران بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے لئے یہ بات یقینی تھی کہ بجلی کے استعمال میں آٹھ فی صد کی سالانہ کی شرح سے اضافہ ہوگا۔ چنانچہ بجلی کی کم مانگ کے پیش نظر انہ 2008 ء اور 2009 ءکے دوران بجلی کی پیداوار کم ہو گئی۔ عرصہٴ دراز تک بجلی کے استعمال کو اقتصادی نمُو کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں یہ صورت حال اتنی واضح نہیں رہی جس کی وجہ بجلی کی بڑی بڑی مصنوعات میں اضافہ ہے۔ مثلاً فلوریسنٹ ٹُیوب لائٹیں، اور اعلیٰ کارکردگی والی موٹرز، جو بجلی کم کھاتی ہیں سنہ 1998 اور 2010 کے درمیان بجلی کے صنعتی استعمال میں اٹھارہ فی صد کمی واقع ہوئی۔
اب تک عام خیال یہی رہا ہے کہ موٹاپے کی وجہ سے انسان اپنی پُوری عمر کو نہیں پہنچ پاتا۔ لیکن، ’ انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹری بیون ‘کی ایک رپورٹ کے مطابق انسانی وزن اور موت کے خطرے کے باہمی تعلّق کا ایک درجن ملکوں میں تجزیہ کیا گیا ہے جس میں تیس لاکھ افراد نے شرکت کی اور جس سے حقیقت سامنے آئی ہے کہ یہ دعویٰ مبالغہ آرائی پر مبنی ہے اور اس کی کوئی سائینسی بُنیاد نہیں ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ باور کرنے کی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ بھاری وزن والے افراد میں موت کے خطرے میں جو معمولی ردّ و بدل دیکھنے میں آیا ہے۔اس میں بُہت مبالغہ کیا گیا ہے اور وزن کو اپنی قوت ارادی سے کم یا زیادہ کرنے سے آپ یہ پیشگوئی نہیں کر سکتے کہ موت کا خطرہ کس حد تک کم ہوتا ہے یا بڑھ جاتا ہے۔اس بات پر کہ انسان نے یہ مضحکہ خیز صورت حال کیسے پیدا کی ۔ اخبار کہتا ہے کہ پچھلی ایک صدی کے دوران امریکیوں کو یہ خبط رہا ہے کہ پتلا ہونے سے اُونچے طبقے میں جانے اور خوب صورت لوگوں کی صف میں شامل ہونے میں مدد ملتی ہے۔
اخبا ر کہتا ہے کہ امریکہ میں کروڑوں اور باقیماندہ دنیا مزید کروڑوں افراد کو ایسے لوگوں کی صف میں شمار کرنے سے جنہیں موٹاپے کی وجہ سے علاج کی ضرورت ہے، مخصوص اقتصادی طبقے کو فائدہ پہنچتا ہے ، جس میں اربوں کھربوں والی صنعتیں اور بڑی بڑی دوا ساز کمپنیاں شامل ہیں جنہوں نے اپنا بے شمار سرمایہ لگا رکھا ہے، تاکہ اُن لوگوں کی خوشنودی حاصل کی جائے جن کو ڈائٹ ڈرگس یا وزن کم کرنے کی ادویات کے ضابطے طے کرنے کا اختیار حاصل ہے ۔
اور ’لاس انجلس ٹائمز ‘ کے مطابق، جب وُہ اسپتال سےباہر آ رہی تھی تو وہ ہلکا خاکستری لباس اور کڑھا ہوا دوپٹہ پہنے ہوئے تھی۔
ایک نرس نے اُسے تھاما ہوا تھا اور وہ دروازے سے نکلتے ہوئے ہاتھ لہرا تے ہوئے وہاں سے رخصت ہوئی۔
ابھی اُس کا علاج مکمل نہیں ہوا ہے اور اُسے اسپتال کے ایک بیان کے مطا بق، لگ بھگ ایک ماہ بعد دوبارہ داخل ہونا ہے،تاکہ مکمل صحت یابی کے لئے اُس کی کھوپڑی کی سرجری کی جا سکے۔
اسپتال کے میڈیکل ڈئرئکٹر ڈیوڈ راسر نے ملالہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اُس کا علاج جن لوگوں کے ہاتھ میں تھا ، اُن کے ساتھ اس نے بڑی محنت کی اور اس طرح اس کی صحت یابی میں بہت اچھی پیش رفت ہوئی ہے ۔
’لاس انجلس ٹائمز ‘کہتا ہے کہ اس پندرہ سالہ لڑکی نےطالبان کے خلاف آواز بُلند کی جو لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت کرتے ہیں اور جنہوں نے اُس کو دوبارہ نشانہ بنانے کی دھمکی دے رکھی ہے۔ ملالہ کی توجّہ دنیا بھر کی عورتوں اور لڑکیوں پر ہے جو ستم جُو حکومتوں کے تحت رہتے ہوئے تعلیم اور دُوسری معاشرتی آزادیوں کے لئے جد و جہد کر رہی ہیں۔
براک اوبامہ کے دوسری مرتبہ صدر منتخب ہونے کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا ہے جِس کے لئے جمعے کے روز نائب صدر جو بائڈن نےکانگریس کے مشترکہ اجلاس کی صدارت کی اور ایوان اور سینیٹ کے چار ارکان نےباری باری ریاستی دارالحکومتوں میں نومبر کے صدارتی انتخاب میں ڈالے گئے ووٹوں کےمیزان کا اعلان کیا ۔ اس کے مطابق صدر اوبامہ کو الیکٹورل کالج کے ووٹوں میں سے کُل 332 ووٹ ملے۔ یعنی، صدارت حاصل کرنے کے لئے مطلوبہ 270 ووٹوں سے کہیں زیادہ۔ اس کے برعکس ریپبلکن مٹ رامنی کو کُل 206 ووٹ ملے۔
’نیو یارک ٹائمز‘ کی رپوٹ ہے کہ امریکہ میں اس وقت لوگ ٹیلی وژن سیٹ، ائر کنڈیشنر اور بجلی کی ایسی ہی مصنوعات کا پہلے سے کہیں زیادہ استعمال کر رہے ہیں ، لیکن تعجُّب کی بات یہ ہے کہ اُن کے بجلی کے استعمال میں مُشکل ہی سے کوئی اضافہ ہوا ہے،، اور یہ بجلی پید ا کرنے والی کمپنیوں کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔
اندازہ لگایا گیاہے کہ سنہ 2040 تک امریکہ میں صنعتی صارفین کی بجلی کی مانگ میں سالانہ اعشاریہ چھ فی صد اضافہ ہوگا اور گھریلو صارفین کی مانگ میں اعشاریہ سات فی صد ۔ یہ صورت حال پچھلی صدی سے بالکل مختلف ہے۔
اس دوران بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے لئے یہ بات یقینی تھی کہ بجلی کے استعمال میں آٹھ فی صد کی سالانہ کی شرح سے اضافہ ہوگا۔ چنانچہ بجلی کی کم مانگ کے پیش نظر انہ 2008 ء اور 2009 ءکے دوران بجلی کی پیداوار کم ہو گئی۔ عرصہٴ دراز تک بجلی کے استعمال کو اقتصادی نمُو کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں یہ صورت حال اتنی واضح نہیں رہی جس کی وجہ بجلی کی بڑی بڑی مصنوعات میں اضافہ ہے۔ مثلاً فلوریسنٹ ٹُیوب لائٹیں، اور اعلیٰ کارکردگی والی موٹرز، جو بجلی کم کھاتی ہیں سنہ 1998 اور 2010 کے درمیان بجلی کے صنعتی استعمال میں اٹھارہ فی صد کمی واقع ہوئی۔
اب تک عام خیال یہی رہا ہے کہ موٹاپے کی وجہ سے انسان اپنی پُوری عمر کو نہیں پہنچ پاتا۔ لیکن، ’ انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹری بیون ‘کی ایک رپورٹ کے مطابق انسانی وزن اور موت کے خطرے کے باہمی تعلّق کا ایک درجن ملکوں میں تجزیہ کیا گیا ہے جس میں تیس لاکھ افراد نے شرکت کی اور جس سے حقیقت سامنے آئی ہے کہ یہ دعویٰ مبالغہ آرائی پر مبنی ہے اور اس کی کوئی سائینسی بُنیاد نہیں ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ باور کرنے کی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ بھاری وزن والے افراد میں موت کے خطرے میں جو معمولی ردّ و بدل دیکھنے میں آیا ہے۔اس میں بُہت مبالغہ کیا گیا ہے اور وزن کو اپنی قوت ارادی سے کم یا زیادہ کرنے سے آپ یہ پیشگوئی نہیں کر سکتے کہ موت کا خطرہ کس حد تک کم ہوتا ہے یا بڑھ جاتا ہے۔اس بات پر کہ انسان نے یہ مضحکہ خیز صورت حال کیسے پیدا کی ۔ اخبار کہتا ہے کہ پچھلی ایک صدی کے دوران امریکیوں کو یہ خبط رہا ہے کہ پتلا ہونے سے اُونچے طبقے میں جانے اور خوب صورت لوگوں کی صف میں شامل ہونے میں مدد ملتی ہے۔
اخبا ر کہتا ہے کہ امریکہ میں کروڑوں اور باقیماندہ دنیا مزید کروڑوں افراد کو ایسے لوگوں کی صف میں شمار کرنے سے جنہیں موٹاپے کی وجہ سے علاج کی ضرورت ہے، مخصوص اقتصادی طبقے کو فائدہ پہنچتا ہے ، جس میں اربوں کھربوں والی صنعتیں اور بڑی بڑی دوا ساز کمپنیاں شامل ہیں جنہوں نے اپنا بے شمار سرمایہ لگا رکھا ہے، تاکہ اُن لوگوں کی خوشنودی حاصل کی جائے جن کو ڈائٹ ڈرگس یا وزن کم کرنے کی ادویات کے ضابطے طے کرنے کا اختیار حاصل ہے ۔