ملالہ یوسف زئی کی غیر معمولی جراٴت کی داد دیتے ہوئے اخبار ’نیو یارک ٹائمز ‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ اگر پاکستان کا کوئی مستقبل ہے تو وہ اس چودہ سالہ لڑکی کی ذات میں مجسّم ہے ، جس سے طالبان اس قدر خوفزدہ تھے کہ انہوں نے اُسے ہلاک کرنے کی کوشش کی۔اور اُس کا قصور محض یہ تھا کہ وہ تعلیم کی پیاسی تھی اور اعلانیہ اس کی تبلیغ کرتی تھی۔
’ملالہ سکول سے گھر جانے کے لئے نکلی تھی جب ایک طالبان حملہ آور نے اس کا نام معلوم کر کے اس پر گولی چلا دی ۔ڈاکٹروں نے اس کے شانے سے گولی تو نکال لی ہے، لیکن اُس کی حالت ابھی تشویشناک ہے، اور طالبان نے دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر وہ بچ گئی ، تو وہ اس کو جان سےمار دینے کی پھر کوشش کریں گے۔‘
اخبار کہتا ہے کہ طالبان کے خلاف سینہ سٕپر ہو کر ملالہ نے پاکستان کی حکومت اور اس کے فوجی لیڈروں کےمقابلے میں زیادہ جراٴت کا مظاہرہ کیاہے اور اُس کے والد نے جس نے اپنی بچی کے عزائم کی حمائت کر کے غیر معمولی ہمّت کا مظاہرہ کیا ، کہا ہے کہ اس کی بیٹی نے عرصے سے طالبان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے ایک جمہوری اور اعتدال پسند اسلامی ملک کا خواب دیکھا تھا۔ لیکن، اِس وقت اِس ملک کو انتہا پسندی نے گھیر رکھا ہےاور اس انتہا پسندی کی بہت زیادہ لوگ یا تو حمائت کررہے ہیں یا اس کی چشم پوشی کر رہے ہیں، لیکن اِس لڑکی پر یہ حملہ اس قدر بہیمانہ تھاکہ مختلف نظریات سے وابستہ پاکستانیوں نے بھی اس مذموم واقعہ پر غم و غصّے کا اظہار کیا ہے۔
اخبار کے خیال میں یہ حملہ پاکستان کی فوج کے لئے خفّت کا باعث ہے جس نے دعویٰ کیا تھا کہ سوات سے طالبان کو مار بھگایا گیا ہےاور فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ملالہ کی عیادت کے لئے اس کے اسپتال جانے کا غیر معمولی قدم اُٹھایا اور حملہ کرنے والوں کے بر خود غلط نظرئے کی مذمّت کی۔ لیکن، اخبار کہتا ہےکہ الفاظ کا اُسی صورت میں کوئی وزن ہوتا ہے، جب اُن پر عمل بھی کیا جائے۔
اخبار نے یاد دلایا ہے کہ حالیہ برسوں میں طالبان کم از کم 200 سکول برباد کر چُکےہیں اوراس بچی پر یہ قاتلانہ حملہ دراصل پُورے پاکستانی معاشرے پر حملہ ہے ۔ لڑکیوں ، تعلیم اور رواداری کے خلاف طالبان نے جو مہم شروع کر رکھی ہے اُسے کامیاب ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، ورنہ اس قوم کا کوئی مستقبل نہیں۔
'طالبان کا ظلمت اور تاریکی والا نظریہ‘ کے عنوان سے ’لاس انجلس ٹائمز‘ ایک ادارئے میں کہتاہے کہ وقت آ گیا ہے جب پاکستان اور دُنیا میں ہرجگہ اس کی وضاحت کی جائے کہ طالبان نے اسلام کا جو فرسُودہ تصوّر اپنے یہاں باندھ رکھا ہے، وہ بنیادی انسانی حقوق سے متّصادم ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ تعلیم کی دلدادہ اس 14 سالہ بچی پر یہ حملہ قابل مذمّت تو ہے ہی۔ لیکن اس سے بھی زیادہ مذموم بات یہ ہے کہ طالبان کے ترجمان نے فخر سے دعویٰ کیا ہے کہ اس لڑکی کو اس لئے نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ طالبان کے فرمان کی حکم عدولی کرتے ہوئے تعلیم نسواں کی حمائت کر تی تھی اور یہ کہ اس حملے سے دوسروں کو عبرت دلانا مقصُود تھا۔
لیکن، اخبار کے خیال میں اس سے یہ عبرت ملنی چاہئیے کہ اس قسم کا تشدّد اورایسی بربریت کا اثر بالکل اُلٹا ہوتا ہے۔ آج کل کی دُنیا میں اس بربریت کی قطعاً گُنجائش نہیں ہے۔ خواہ پاکستان ہو، افغانستان ہو، یا اور کوئی اور ملک۔اور وقت آ گیا ہے جب یہ وضاحت کر دینی چاہئیے کہ طالبان اسلام کاجو بہیمانہ اور فرسودہ تصور پیش کرتے ہیں وُہ مروّج تصوّر نہیں ہے، اور اخبار کے بقول، یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے کہ پورے پاکستان میں غم و غصّے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اور اس واقعے کی ملک کےصدر، فوج کے سربراہ، میڈیا اور عامتہ النّاس نے اس کی مذمّت کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود طالبان کی مہم نہ صرف خواتین کے خلاف بلکہ ہر اُس چیز کے خلاف جاری ہے۔جس میں مغربی اثر کا کوئی پہلو نظر آئے، اور بُدھ کے روز طالبان نے ا پنا یہ مضحکہ خیز موقّف دُہرایا کہ وُہ لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت جاری رکھیں گے اور ہر اُس شخص کو نشانہ نائیں گےجوسیکیولرزم کاپرچار کرے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ واقعہ بڑا دٕلخراش ہے اور طالبان کی اس دھمکی سے کہ وُہ اس قسم کے مزید حملے کریں گے ، انسان کا خُون کھولتا ہے۔ لڑکیوں کو تعلیم کے حصول کے لئے سکول بھیجنا مغربی تہذیب کا دیوانہ پن نہیں ہے، بلکہ ایک بنیادی انسانی حق ہے جس کا اس پُورے کرہٴ ارض میں تحفُظ ہونا چاہئیے۔
ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی طرف سے جو سنگین اقتصادی تعزیرات لگ چُکی ہیں ’ شکاگو ٹریبیون‘ کے مطابق ان کی وجہ سے ایران کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اور ڈالر کے مقابلے میں ایران کی کرنسی کی قیمت اتنی زیادہ گر گئی ہےکہ خود صدر احمدی نجاد کو اس کا اعتراف کرنا پڑا ہے ۔
اخبار کہتا ہے کہ دسیوں ہزاروں تاجر، دکاندار، مزدور اور سرگرم کارکُن تہران کی سڑکوں پر نکل آئے ہیں جن میں سے بعض نے یہ نعرہ لگایاکہ ہمیں جوہری توانائی نہیں چاہئیے ، جوبقول اخبار کے، اِس بات کی علامت ہے کہ احتجاج کرنے والے اپنی اقتصادی تکالیف کے لئے بجا طور پر حکومت کو ذمہ دار ٹھیراتے ہیں۔ کیونکہ، وہ اپنا جوہری پروگرام بند کرنے کے لئے تیار نہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ ایران میں ایک طرف افراط زر میں اور دوسری طرف بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہےاور لوگوں کو سخت غصّہ ہے۔ چنانچہ، اخبار کا خیال ہے کہ ایران کو اپنا جوہری پروگرام بند کرنے پر مجبور کرنے کے لئے اس کے خلاف اس سے بھی زیادہ اقتصادی دباؤ ڈالنا چاہئیے۔
’ملالہ سکول سے گھر جانے کے لئے نکلی تھی جب ایک طالبان حملہ آور نے اس کا نام معلوم کر کے اس پر گولی چلا دی ۔ڈاکٹروں نے اس کے شانے سے گولی تو نکال لی ہے، لیکن اُس کی حالت ابھی تشویشناک ہے، اور طالبان نے دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر وہ بچ گئی ، تو وہ اس کو جان سےمار دینے کی پھر کوشش کریں گے۔‘
اخبار کہتا ہے کہ طالبان کے خلاف سینہ سٕپر ہو کر ملالہ نے پاکستان کی حکومت اور اس کے فوجی لیڈروں کےمقابلے میں زیادہ جراٴت کا مظاہرہ کیاہے اور اُس کے والد نے جس نے اپنی بچی کے عزائم کی حمائت کر کے غیر معمولی ہمّت کا مظاہرہ کیا ، کہا ہے کہ اس کی بیٹی نے عرصے سے طالبان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے ایک جمہوری اور اعتدال پسند اسلامی ملک کا خواب دیکھا تھا۔ لیکن، اِس وقت اِس ملک کو انتہا پسندی نے گھیر رکھا ہےاور اس انتہا پسندی کی بہت زیادہ لوگ یا تو حمائت کررہے ہیں یا اس کی چشم پوشی کر رہے ہیں، لیکن اِس لڑکی پر یہ حملہ اس قدر بہیمانہ تھاکہ مختلف نظریات سے وابستہ پاکستانیوں نے بھی اس مذموم واقعہ پر غم و غصّے کا اظہار کیا ہے۔
اخبار کے خیال میں یہ حملہ پاکستان کی فوج کے لئے خفّت کا باعث ہے جس نے دعویٰ کیا تھا کہ سوات سے طالبان کو مار بھگایا گیا ہےاور فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ملالہ کی عیادت کے لئے اس کے اسپتال جانے کا غیر معمولی قدم اُٹھایا اور حملہ کرنے والوں کے بر خود غلط نظرئے کی مذمّت کی۔ لیکن، اخبار کہتا ہےکہ الفاظ کا اُسی صورت میں کوئی وزن ہوتا ہے، جب اُن پر عمل بھی کیا جائے۔
اخبار نے یاد دلایا ہے کہ حالیہ برسوں میں طالبان کم از کم 200 سکول برباد کر چُکےہیں اوراس بچی پر یہ قاتلانہ حملہ دراصل پُورے پاکستانی معاشرے پر حملہ ہے ۔ لڑکیوں ، تعلیم اور رواداری کے خلاف طالبان نے جو مہم شروع کر رکھی ہے اُسے کامیاب ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، ورنہ اس قوم کا کوئی مستقبل نہیں۔
'طالبان کا ظلمت اور تاریکی والا نظریہ‘ کے عنوان سے ’لاس انجلس ٹائمز‘ ایک ادارئے میں کہتاہے کہ وقت آ گیا ہے جب پاکستان اور دُنیا میں ہرجگہ اس کی وضاحت کی جائے کہ طالبان نے اسلام کا جو فرسُودہ تصوّر اپنے یہاں باندھ رکھا ہے، وہ بنیادی انسانی حقوق سے متّصادم ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ تعلیم کی دلدادہ اس 14 سالہ بچی پر یہ حملہ قابل مذمّت تو ہے ہی۔ لیکن اس سے بھی زیادہ مذموم بات یہ ہے کہ طالبان کے ترجمان نے فخر سے دعویٰ کیا ہے کہ اس لڑکی کو اس لئے نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ طالبان کے فرمان کی حکم عدولی کرتے ہوئے تعلیم نسواں کی حمائت کر تی تھی اور یہ کہ اس حملے سے دوسروں کو عبرت دلانا مقصُود تھا۔
لیکن، اخبار کے خیال میں اس سے یہ عبرت ملنی چاہئیے کہ اس قسم کا تشدّد اورایسی بربریت کا اثر بالکل اُلٹا ہوتا ہے۔ آج کل کی دُنیا میں اس بربریت کی قطعاً گُنجائش نہیں ہے۔ خواہ پاکستان ہو، افغانستان ہو، یا اور کوئی اور ملک۔اور وقت آ گیا ہے جب یہ وضاحت کر دینی چاہئیے کہ طالبان اسلام کاجو بہیمانہ اور فرسودہ تصور پیش کرتے ہیں وُہ مروّج تصوّر نہیں ہے، اور اخبار کے بقول، یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے کہ پورے پاکستان میں غم و غصّے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اور اس واقعے کی ملک کےصدر، فوج کے سربراہ، میڈیا اور عامتہ النّاس نے اس کی مذمّت کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود طالبان کی مہم نہ صرف خواتین کے خلاف بلکہ ہر اُس چیز کے خلاف جاری ہے۔جس میں مغربی اثر کا کوئی پہلو نظر آئے، اور بُدھ کے روز طالبان نے ا پنا یہ مضحکہ خیز موقّف دُہرایا کہ وُہ لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت جاری رکھیں گے اور ہر اُس شخص کو نشانہ نائیں گےجوسیکیولرزم کاپرچار کرے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ واقعہ بڑا دٕلخراش ہے اور طالبان کی اس دھمکی سے کہ وُہ اس قسم کے مزید حملے کریں گے ، انسان کا خُون کھولتا ہے۔ لڑکیوں کو تعلیم کے حصول کے لئے سکول بھیجنا مغربی تہذیب کا دیوانہ پن نہیں ہے، بلکہ ایک بنیادی انسانی حق ہے جس کا اس پُورے کرہٴ ارض میں تحفُظ ہونا چاہئیے۔
ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی طرف سے جو سنگین اقتصادی تعزیرات لگ چُکی ہیں ’ شکاگو ٹریبیون‘ کے مطابق ان کی وجہ سے ایران کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اور ڈالر کے مقابلے میں ایران کی کرنسی کی قیمت اتنی زیادہ گر گئی ہےکہ خود صدر احمدی نجاد کو اس کا اعتراف کرنا پڑا ہے ۔
اخبار کہتا ہے کہ دسیوں ہزاروں تاجر، دکاندار، مزدور اور سرگرم کارکُن تہران کی سڑکوں پر نکل آئے ہیں جن میں سے بعض نے یہ نعرہ لگایاکہ ہمیں جوہری توانائی نہیں چاہئیے ، جوبقول اخبار کے، اِس بات کی علامت ہے کہ احتجاج کرنے والے اپنی اقتصادی تکالیف کے لئے بجا طور پر حکومت کو ذمہ دار ٹھیراتے ہیں۔ کیونکہ، وہ اپنا جوہری پروگرام بند کرنے کے لئے تیار نہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ ایران میں ایک طرف افراط زر میں اور دوسری طرف بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہےاور لوگوں کو سخت غصّہ ہے۔ چنانچہ، اخبار کا خیال ہے کہ ایران کو اپنا جوہری پروگرام بند کرنے پر مجبور کرنے کے لئے اس کے خلاف اس سے بھی زیادہ اقتصادی دباؤ ڈالنا چاہئیے۔