’پٹس برگ پوسٹ گزٹ‘ اخبار کہتا ہے کہ امریکہ اور کُچھ اور ملکوں کی سفارتی کاوشوں کی بدولت شام کے مسئلے کی نوعیت، ایک ہفتے قبل کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے، گو حالات اب بھی گھمبیر ہیں۔
صدر اوبامہ بُہت بہتر پُوزیشن میں ہیں۔ بجائے کانگریس میں شام پر امکانی امریکی حملے پر رائے شماری کے، جِس میں, بقول اخبار کے, وُہ شائد ہار جاتے، اور جس کے نتائج سنگین ہو سکتے تھے, اب یہ معاملہ بین الاقوامی سفارت کاری کی تحویل میں ہے جو اب اس کا فیصلہ کرے گی کہ شامی صدر بشارالاسد کی حکومت کے کیمیائی ہتھیاروں کے اسلحے خانے کا کیا کیا جا ئے۔ اور اخبار کی دانست میں، اسے ہونا بھی وہیں چاہئیے، خاص طور پر امریکی رائے عامہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے۔ جس سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ عراق اور افغانستان کی جنگوں کے بعد اس ملک کے لوگ مشرق وسطیٰ میں ایک اور جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
اخبار کہتا ہے کہ جنگ سے امریکیوں کی نفرت کی بنیاد یہ ہے کہ شام سے امریکہ کے اہم مفادات کو کوئی خطرہ نہیں۔ لیکن، اس سے قطع نظر، اخبار کی دانست میں اسد حکومت کو اپنے کیمیائی ہتھیاروں کی مکمل فہرست اقوام متحدہ کو دینی ہوگی اور اقوام متحد کی قراردادوں کے مطابق، اُنہیں تباہ کرنا ہوگا۔ اور شام کی دو سال سے جاری خانہ جنگی کا کوئی تسلّی بخش حل نکالنا پڑے گا۔ جو کوئی آسان کام نہیں ہے۔ لیکن، جو بہر حال، امریکہ کے لئے ایک اور جنگ پر اُٹھنے والی مالی اور انسانی جانوں کی لاگت سے کہیں بہتر سودا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ وزیر خارجہ جان کیری کی اس سلسلے میں جو کارکردگی رہی ہے، اُس سے یہ امید پیدا ہوتی ہے کہ وہ اس معاملے کو انجام تک پہنچانے میں کامیاب ہونگے۔
واشنگٹن کے نیوی یارڈ میں ایک مُختل شخص کے ہاتھوں 12 افراد کے قتل عام پر ’میامی ہیرلڈ‘ اخبار میں کالم نگار لینرڈ پِٹس نے یہ سوال اُٹھایا ہے کہ کیا امریکہ پاگل ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ جب تک اس حملہ آور کے بارے میں کُچھ پتہ نہیں تھا، مسلمانوں کے لبوں پر یہی دُعا تھی کہ خدا کرے وُہ مسلمان نہ ہو۔ کیونکہ، پچھلے 12 سال کے تجربے نے اُنہیں یہ سبق سکھایا ہے کہ ایک واحد پاگل شخص کی حرکتوں سے ایک پورے مذہب اور اُس کے پیروکاروں پر کالک مل دی جاتی ہے۔ لیکن، آخر کو اس حملہ آور کے بارے میں پتہ چلا کہ وُہ ٹیکسس کا ایک سیاہ فام بُدھ ہے۔
مصنّف کا کہنا ہےکہ اپنی تایخی جراٴتمندیوں کے باوجود امریکی شائد کئی اعتبار سے ڈرپوک قوم ہیں۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ 30 کروڈ 16 لاکھ نفوس پر مشتمل اس قوم کے پاس جتنی بندوقیں ہیں۔ اُن کی تعداد 30 کروڑ ہے۔ کسی اور ملک میں فی کس کے تناسُب سے اتنے زیادہ ہتھیار نہیں ہیں۔
امریکیوں کے لئے یہ تصور کرنا ناممکن ہے کہ ان کے پاس کوئی ہتھیار نہ ہو۔ پچھلے ہفتے آیوا کے ایک اخبار نے یہ خبر شائع کی تھی کہ اُس ریاست میں اندھے لوگوں کو بھی بندوقوں کے پرمٹ جاری کئے جاتے ہیں۔ اور جیسا کہ مصنف نے طنزاً کہا ہے ایسا لگ رہا ہے کہ بجائے اس کے کہ اس صورت حال کا مداوا کیا جائے، لوگ بار بار اس قسم کے سانحوں سے گزرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، جاپان میں ایسے لاکھوں مکان ہیں جہاں لوگوں نے سُونامی میں فُوکُو شیما کے جوہری بجلی گھر کے تباہ ہونے کے حادثے کے بعد گھر میں بجلی پیدا کرنے کے لئے سولر یا آفتابی پینل اور توانائی کے سیل نصب کر رکھے ہیں۔
روائتی بجلی گھروں کے خلاف احتجاجاً توانائی کے متبادل ذرائع نصب کر کے ان لوگوں کے خود توانائی پیدا کرنے کےاس اقدام کی بدولت جاپان دنیا کی ایک ایسی لیبارٹری میں بدل رہا ہے جہاں روائتی گرڈ سٹیشنون اور صدیوں پرانے کاروباری طریقوں کی جگہ نئے طریقے اپنائے جا رہے ہیں۔ ڈھائی سال قبل اس جوہری سانحے کے بعد مکان تعمیر کرنے والی کمپنیوں نے اس متبادل ٹیکنالوجی کو نئے مکانوں میں ایک اہم جُزو کے طور پر شامل کرنا شروع کیا ہے۔
جاپان کی سنگل فیملی مکان تعمیر کرنے والی سب سے بڑی کمپنی کہتی ہے کہ وہ جتنے مکان بناتی ہے۔ ان میں سے 80 فیصد میں سولر پینل لگے ہوتے ہیں اور 50 فی صد میں ایندھن سے چلنے والے سیل لگے ہوتے ہیں۔ اور یہ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کا باہر کی دنیا کو علم نہیں ہے۔ جاپانی قوم کے مُوڈ کی ترجمانی کرتے ہوئے اس کمپنی کے ایک عہدہ دار کا کہنا تھا کہ اگر آپ کو بجلی استعمال کرنا ہے تو پھر آپ اسے خودہی پیدا بھی کریں۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکہ میں یہ بات ابھی محض تھیوری کے مرحلے سے گُذر رہی ہے۔ لیکن، جاپان نے ثابت کر دیا ہے کہ اسے کیونکر حقیقت کا جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ جاپان کی بڑی بڑی پاور کمپنیو ں کو سالانہ اربوں ڈالر کا گھاٹا ہو رہا ہے۔ کیونکہ، سنہ 2011 کے زلزلے اور سُونامی کے 14 ماہ کے اندر ملک کے تمام 50 جوہری بجلی گھروں کو بند کرنا پڑا تھا۔ اس ماہ دو کو دوبارہ چالو کر دیا گیا تھا۔ لیکن، دیکھ بھال کے لئے، انہیں دوبارہ بند کرنا پڑا تھا۔ ان غیر یقینی حالات اور بڑھتے ہوئے نرخوں کی وجہ سے، جاپان میں توانائی کے نئے ذرائع میں دلچسپی بڑھ گئی ہے۔ اور رائے عامہ کے جائروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ جاپانیوں کی اکثریت جوہری بجلی گھروں کو مرحلہ وار ختم کرنا چاہتی ہے۔
صدر اوبامہ بُہت بہتر پُوزیشن میں ہیں۔ بجائے کانگریس میں شام پر امکانی امریکی حملے پر رائے شماری کے، جِس میں, بقول اخبار کے, وُہ شائد ہار جاتے، اور جس کے نتائج سنگین ہو سکتے تھے, اب یہ معاملہ بین الاقوامی سفارت کاری کی تحویل میں ہے جو اب اس کا فیصلہ کرے گی کہ شامی صدر بشارالاسد کی حکومت کے کیمیائی ہتھیاروں کے اسلحے خانے کا کیا کیا جا ئے۔ اور اخبار کی دانست میں، اسے ہونا بھی وہیں چاہئیے، خاص طور پر امریکی رائے عامہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے۔ جس سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ عراق اور افغانستان کی جنگوں کے بعد اس ملک کے لوگ مشرق وسطیٰ میں ایک اور جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
اخبار کہتا ہے کہ جنگ سے امریکیوں کی نفرت کی بنیاد یہ ہے کہ شام سے امریکہ کے اہم مفادات کو کوئی خطرہ نہیں۔ لیکن، اس سے قطع نظر، اخبار کی دانست میں اسد حکومت کو اپنے کیمیائی ہتھیاروں کی مکمل فہرست اقوام متحدہ کو دینی ہوگی اور اقوام متحد کی قراردادوں کے مطابق، اُنہیں تباہ کرنا ہوگا۔ اور شام کی دو سال سے جاری خانہ جنگی کا کوئی تسلّی بخش حل نکالنا پڑے گا۔ جو کوئی آسان کام نہیں ہے۔ لیکن، جو بہر حال، امریکہ کے لئے ایک اور جنگ پر اُٹھنے والی مالی اور انسانی جانوں کی لاگت سے کہیں بہتر سودا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ وزیر خارجہ جان کیری کی اس سلسلے میں جو کارکردگی رہی ہے، اُس سے یہ امید پیدا ہوتی ہے کہ وہ اس معاملے کو انجام تک پہنچانے میں کامیاب ہونگے۔
واشنگٹن کے نیوی یارڈ میں ایک مُختل شخص کے ہاتھوں 12 افراد کے قتل عام پر ’میامی ہیرلڈ‘ اخبار میں کالم نگار لینرڈ پِٹس نے یہ سوال اُٹھایا ہے کہ کیا امریکہ پاگل ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ جب تک اس حملہ آور کے بارے میں کُچھ پتہ نہیں تھا، مسلمانوں کے لبوں پر یہی دُعا تھی کہ خدا کرے وُہ مسلمان نہ ہو۔ کیونکہ، پچھلے 12 سال کے تجربے نے اُنہیں یہ سبق سکھایا ہے کہ ایک واحد پاگل شخص کی حرکتوں سے ایک پورے مذہب اور اُس کے پیروکاروں پر کالک مل دی جاتی ہے۔ لیکن، آخر کو اس حملہ آور کے بارے میں پتہ چلا کہ وُہ ٹیکسس کا ایک سیاہ فام بُدھ ہے۔
مصنّف کا کہنا ہےکہ اپنی تایخی جراٴتمندیوں کے باوجود امریکی شائد کئی اعتبار سے ڈرپوک قوم ہیں۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ 30 کروڈ 16 لاکھ نفوس پر مشتمل اس قوم کے پاس جتنی بندوقیں ہیں۔ اُن کی تعداد 30 کروڑ ہے۔ کسی اور ملک میں فی کس کے تناسُب سے اتنے زیادہ ہتھیار نہیں ہیں۔
امریکیوں کے لئے یہ تصور کرنا ناممکن ہے کہ ان کے پاس کوئی ہتھیار نہ ہو۔ پچھلے ہفتے آیوا کے ایک اخبار نے یہ خبر شائع کی تھی کہ اُس ریاست میں اندھے لوگوں کو بھی بندوقوں کے پرمٹ جاری کئے جاتے ہیں۔ اور جیسا کہ مصنف نے طنزاً کہا ہے ایسا لگ رہا ہے کہ بجائے اس کے کہ اس صورت حال کا مداوا کیا جائے، لوگ بار بار اس قسم کے سانحوں سے گزرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، جاپان میں ایسے لاکھوں مکان ہیں جہاں لوگوں نے سُونامی میں فُوکُو شیما کے جوہری بجلی گھر کے تباہ ہونے کے حادثے کے بعد گھر میں بجلی پیدا کرنے کے لئے سولر یا آفتابی پینل اور توانائی کے سیل نصب کر رکھے ہیں۔
روائتی بجلی گھروں کے خلاف احتجاجاً توانائی کے متبادل ذرائع نصب کر کے ان لوگوں کے خود توانائی پیدا کرنے کےاس اقدام کی بدولت جاپان دنیا کی ایک ایسی لیبارٹری میں بدل رہا ہے جہاں روائتی گرڈ سٹیشنون اور صدیوں پرانے کاروباری طریقوں کی جگہ نئے طریقے اپنائے جا رہے ہیں۔ ڈھائی سال قبل اس جوہری سانحے کے بعد مکان تعمیر کرنے والی کمپنیوں نے اس متبادل ٹیکنالوجی کو نئے مکانوں میں ایک اہم جُزو کے طور پر شامل کرنا شروع کیا ہے۔
جاپان کی سنگل فیملی مکان تعمیر کرنے والی سب سے بڑی کمپنی کہتی ہے کہ وہ جتنے مکان بناتی ہے۔ ان میں سے 80 فیصد میں سولر پینل لگے ہوتے ہیں اور 50 فی صد میں ایندھن سے چلنے والے سیل لگے ہوتے ہیں۔ اور یہ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کا باہر کی دنیا کو علم نہیں ہے۔ جاپانی قوم کے مُوڈ کی ترجمانی کرتے ہوئے اس کمپنی کے ایک عہدہ دار کا کہنا تھا کہ اگر آپ کو بجلی استعمال کرنا ہے تو پھر آپ اسے خودہی پیدا بھی کریں۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکہ میں یہ بات ابھی محض تھیوری کے مرحلے سے گُذر رہی ہے۔ لیکن، جاپان نے ثابت کر دیا ہے کہ اسے کیونکر حقیقت کا جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ جاپان کی بڑی بڑی پاور کمپنیو ں کو سالانہ اربوں ڈالر کا گھاٹا ہو رہا ہے۔ کیونکہ، سنہ 2011 کے زلزلے اور سُونامی کے 14 ماہ کے اندر ملک کے تمام 50 جوہری بجلی گھروں کو بند کرنا پڑا تھا۔ اس ماہ دو کو دوبارہ چالو کر دیا گیا تھا۔ لیکن، دیکھ بھال کے لئے، انہیں دوبارہ بند کرنا پڑا تھا۔ ان غیر یقینی حالات اور بڑھتے ہوئے نرخوں کی وجہ سے، جاپان میں توانائی کے نئے ذرائع میں دلچسپی بڑھ گئی ہے۔ اور رائے عامہ کے جائروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ جاپانیوں کی اکثریت جوہری بجلی گھروں کو مرحلہ وار ختم کرنا چاہتی ہے۔