شمالی کوریا کی طرف سے دسمبر میں راکیٹ خلا میں بھیجنے کی کارروائی کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جو مذمت کی تھی، اُس کے دو روز بعد اُس ملک نے جواب میں عہد کیا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کا ایک اور تجربہ کرے گا جس کا ہدف، اُس کے بقول، اس کا دشمن امریکہ ہوگا۔
’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ مذمت کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی تھی اور اس میں شمالی کوریا کا قریب ترین حلیف چین بھی شامل تھا اور اس کی رُو سے شمالی کوریا کے خلاف تعزیرات اور بھی سنگین کردی گئیں۔
اخبار کہتا ہے کہ 12دسمبر کو شمالی کوریا نے جو راکیٹ داغا تھا وہ اقوام متحدہ کے ساتھ اس کے سابق معاہدوں کی صریح خلاف ورزی تھی۔
اُس وقت شمالی کوریا نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے ارادے مکمل طور پر پُرامن ہیں اور وہ خلا کو پُرامن مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا حق استعمال کر رہا ہے۔
لیکن، اب اُس کا لہجہ بدل گیا ہے اور اُس نے کہا ہے کہ ہم یہ حقیقت نہیں چھپا رہے کہ جو مصنوعی سیارچہ اور دورمار کرنے والے راکیٹ داغے جارہے ہیں اُن کا ہدف امریکہ ہے۔
اخبار نے ایسو سی ایٹڈ پریس کے حوالے سے بتایا ہے کہ شمالی کوریا کو مزید تجربےکرنے پڑیں گے جن کے بعد ہی وہ اتنا چھوٹا جوہری ہتھیار بنا سکے گا جسے دور مار کرنے والے میزائل کے وارہیڈ میں نصب کیا جاسکے۔
’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ شمالی کوریا کے لیڈر کِم جانگ اَن ملک کے اندر اور عالمی سطح پر نام پیدا کرنے کے لیے اپنے والد کی پالیسیوں پر عمل کر رہے ہیں جن میں اولین حیثیت فوج کو حاصل ہے۔
اس پر ’نیو یارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ شمالی کوریا کے اس غیر آزمودہ لیڈر کی طرف سے یہ دھمکی سب سے زیادہ جراتمندانہ چیلنج ہے۔ نہ صرف اس کے قدیمی غنیم امریکہ کے لیے، بلکہ اس کے واحد اتحادی چین کے لیے بھی۔
امریکی محکمہٴ دفاع کے ایک فیصلے کے تحت فوج میں بھرتی خواتین پر لڑائی کی جن بعض ذمہ داریاں سنبھالنے پر جو پابندی تھی اُسے ہٹا لیا گیا ہے اور اب وہ لڑائی میں مردوں کی طرح شرکت کرسکتی ہیں اور جیسا کہ ’نیویارک ٹائمز‘ کہتا ہے اس تاریخی فیصلے سے 1994ء کے اُس ضابطے کو کالعدم قرار دیا گیا ہے جس کی رُو سےخواتین پر توپ خانے، بکتر بند، پیدل فوج اور لڑائی جیسی دوسری ایسی ذمہ داریوں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔ اگرچہ، حقیقیت میں عراق اور افغانستان میں خواتین اکثر اس قسم کے فرائض دے چکی ہیں جہاں کُل 20000خواتین نے ڈیوٹی دی ہے اور 800خواتین اِن جنگوں میں زخمی بھی ہوئی ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ فیصلہ وسیع اور پُرعزم لبرل ایجنڈے کی مطابقت میں ہے، خاص طور پر مساویانہ مواقع کی جس کی وضاحت صدر اوباما نے پیر کے روز دوسری مرتبہ صدر کا عہدہ سنبھالتے وقت اپنی تقریر میں کی تھی۔
اخبار نے ایک فوجی عہدے دار کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس فیصلے پر جس قدر جلد ممکن ہو عمل درآمد کیا جائے گا۔ اس کے لیے فوج کی ہر شاخ کو اگلے چند ماہ کے دوران اپنی تجویز پیش کرنی ہوگی۔
اخبار نے دفاعی عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ نئے فیصلے سے خواتین محاذجنگ کی لاکھوں اضافی ملازمتوں کے لیے درخواست دے سکتی ہیں۔
’اِی این آئی نیوز‘ چینل کے مطابق جنوبی آسٹریلیا میں تیل کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں جن کی مجموعی مالیت دسیوں کھربوں ڈالر بتائی جاتی ہے اور یہ علاقہ ایک نیا سعودی عرب بن جائے گا۔
اس دریافت کو امریکہ میں شیل آئیل کے اُن منصوبوں کے مشابہ قرار دیا گیا ہے جن سے بھاری مقدار میں تیل برآمد ہونے لگا ہے اور یہ پیش گوئیاں کی جاررہی ہیں کہ امریکہ اسی سال سعودی عرب سے زیادہ تیل پیدا کرنے لگے گا۔
’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ مذمت کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی تھی اور اس میں شمالی کوریا کا قریب ترین حلیف چین بھی شامل تھا اور اس کی رُو سے شمالی کوریا کے خلاف تعزیرات اور بھی سنگین کردی گئیں۔
اخبار کہتا ہے کہ 12دسمبر کو شمالی کوریا نے جو راکیٹ داغا تھا وہ اقوام متحدہ کے ساتھ اس کے سابق معاہدوں کی صریح خلاف ورزی تھی۔
اُس وقت شمالی کوریا نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے ارادے مکمل طور پر پُرامن ہیں اور وہ خلا کو پُرامن مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا حق استعمال کر رہا ہے۔
لیکن، اب اُس کا لہجہ بدل گیا ہے اور اُس نے کہا ہے کہ ہم یہ حقیقت نہیں چھپا رہے کہ جو مصنوعی سیارچہ اور دورمار کرنے والے راکیٹ داغے جارہے ہیں اُن کا ہدف امریکہ ہے۔
اخبار نے ایسو سی ایٹڈ پریس کے حوالے سے بتایا ہے کہ شمالی کوریا کو مزید تجربےکرنے پڑیں گے جن کے بعد ہی وہ اتنا چھوٹا جوہری ہتھیار بنا سکے گا جسے دور مار کرنے والے میزائل کے وارہیڈ میں نصب کیا جاسکے۔
’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ شمالی کوریا کے لیڈر کِم جانگ اَن ملک کے اندر اور عالمی سطح پر نام پیدا کرنے کے لیے اپنے والد کی پالیسیوں پر عمل کر رہے ہیں جن میں اولین حیثیت فوج کو حاصل ہے۔
اس پر ’نیو یارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ شمالی کوریا کے اس غیر آزمودہ لیڈر کی طرف سے یہ دھمکی سب سے زیادہ جراتمندانہ چیلنج ہے۔ نہ صرف اس کے قدیمی غنیم امریکہ کے لیے، بلکہ اس کے واحد اتحادی چین کے لیے بھی۔
امریکی محکمہٴ دفاع کے ایک فیصلے کے تحت فوج میں بھرتی خواتین پر لڑائی کی جن بعض ذمہ داریاں سنبھالنے پر جو پابندی تھی اُسے ہٹا لیا گیا ہے اور اب وہ لڑائی میں مردوں کی طرح شرکت کرسکتی ہیں اور جیسا کہ ’نیویارک ٹائمز‘ کہتا ہے اس تاریخی فیصلے سے 1994ء کے اُس ضابطے کو کالعدم قرار دیا گیا ہے جس کی رُو سےخواتین پر توپ خانے، بکتر بند، پیدل فوج اور لڑائی جیسی دوسری ایسی ذمہ داریوں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔ اگرچہ، حقیقیت میں عراق اور افغانستان میں خواتین اکثر اس قسم کے فرائض دے چکی ہیں جہاں کُل 20000خواتین نے ڈیوٹی دی ہے اور 800خواتین اِن جنگوں میں زخمی بھی ہوئی ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ فیصلہ وسیع اور پُرعزم لبرل ایجنڈے کی مطابقت میں ہے، خاص طور پر مساویانہ مواقع کی جس کی وضاحت صدر اوباما نے پیر کے روز دوسری مرتبہ صدر کا عہدہ سنبھالتے وقت اپنی تقریر میں کی تھی۔
اخبار نے ایک فوجی عہدے دار کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس فیصلے پر جس قدر جلد ممکن ہو عمل درآمد کیا جائے گا۔ اس کے لیے فوج کی ہر شاخ کو اگلے چند ماہ کے دوران اپنی تجویز پیش کرنی ہوگی۔
اخبار نے دفاعی عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ نئے فیصلے سے خواتین محاذجنگ کی لاکھوں اضافی ملازمتوں کے لیے درخواست دے سکتی ہیں۔
’اِی این آئی نیوز‘ چینل کے مطابق جنوبی آسٹریلیا میں تیل کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں جن کی مجموعی مالیت دسیوں کھربوں ڈالر بتائی جاتی ہے اور یہ علاقہ ایک نیا سعودی عرب بن جائے گا۔
اس دریافت کو امریکہ میں شیل آئیل کے اُن منصوبوں کے مشابہ قرار دیا گیا ہے جن سے بھاری مقدار میں تیل برآمد ہونے لگا ہے اور یہ پیش گوئیاں کی جاررہی ہیں کہ امریکہ اسی سال سعودی عرب سے زیادہ تیل پیدا کرنے لگے گا۔