رسائی کے لنکس

عمران خان کی گرفتاری پاکستان کا 'اندرونی معاملہ' ہے: ترجمان محکمہ خارجہ


امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر ۔ فائل فوٹو
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر ۔ فائل فوٹو

امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری پاکستان کا 'اندرونی معاملہ' ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے یہ بات پیر کو معمول کی پریس بریفنگ کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کی گرفتاری کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہی ۔

ان سے عمران خان کی گرفتاری کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دینے پر مزید سوال کیا گیا کہ کیا روس میں حزب اختلاف کی رہنما الیکسی ناولنی کو سزا سنایا جانا روس کا اندرونی معاملہ نہیں ہے؟۔۔ جس پر میتھیو ملر نے کہا کہ بعض مقدمات (دنیا بھر میں)ایسے سامنے آتے ہیں، جو بظاہر بالکل ہی بے بنیاد معلوم ہوتے ہیں، کہ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کو اس بارے میں کچھ نہ کچھ کہنا چاہئے، لیکن ہم نے اب تک (عمران خان کے معاملے پر )ایسا کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

واشنگٹن کے تھنک ٹینک کیا سوچ رہے ہیں؟

خبر رساں ادارے رائٹرز نے جن ماہرین سے بات کی ہے ، ان کے مطابق عمران خان کی قانونی مشکلات کے حوالے سے امریکہ کا ردعمل خاصا muted یعنی خاموشی پر مبنی رہا ہے۔

واشنگٹن کے تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوشن سے منسلک مدیحہ افضال کہتی ہیں کہ 'عمران خان کا اپنی حکومت کے خاتمے کے لئے امریکہ کو مورد الزام ٹہرانا یقینی طور پر ان کے حق میں زیادہ مددگار ثابت نہیں ہوا۔ اس کے بعد سے امریکہ پاکستان کی سیاسی صورتحال پر کوئی واضح تبصرہ نہ کرنے پر قائم ہے'۔

عمران خان اپنی پوری سیاسی زندگی میں امریکہ کی خارجہ پالیسی کے ناقد رہے ہیں۔ پاکستان کے ابھرتے ہوئے سیاسی رہنما کے طور پر عمران خان نے پاکستان افغانستان سرحدی علاقوں میں امریکہ کے ڈرون حملوں پر زبردست تنقید کی تھی اور انہیں 'ایکسٹرا جوڈیشنل کلنگز ' اور پاکستان کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا تھا۔

ایک اور امریکی تھنک ٹینک ولسن سینٹر کے جنوبی ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کا خیال ہے کہ ماضی میں عمران خان کی (امریکہ پر )تنقید کی وجہ سے واشنگٹن میں ان کے لئے زیادہ ہمدردی نہیں پائی جاتی۔

کوگل مین کے بقول، 'میرا خیال ہےکہ امریکہ کی خاموشی برقرار رہے گی'۔

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق، عمران خان پاکستان کے بےحد مقبول سیاسی رہنما ہیں۔ نو مئی کے بعد عمران خان کی پارٹی کے کارکنوں کے جانب سے کئے گئے پر تشدد مظاہروں کے خلاف پاکستانی حکام کے بڑے کریک ڈاون اور گرفتاریوں کے بعد انسانی حقوق کے کارکنوں نے پاکستان میں بااختیار اداروں کی جانب سے طاقت کے ناجائز استعمال کے الزامات لگائے تھے، لیکن مائیکل کوگل مین کے مطابق اس وقت امریکہ کی جانب سے کسی سخت ردعمل کو عمران خان کی طرفداری سمجھا جا سکتا تھا۔

مائیکل کوگل مین کے بقول، خان نے واشنگٹن میں کئی پل جلا دیئے ہیں، انہیں واشنگٹن میں زیادہ ہمدرد شخصیت کے طور پر نہیں دیکھا جاتا اس لئے (صدر بائیڈن کی) انتظامیہ ان کے لئے بہت آگے بڑھ کر کچھ نہیں کرنا چاہتی۔

کوگل مین کے بقول، پاکستان اب واشنگٹن کے لئے اتنی بڑی علاقائی ترجیح نہیں رہا، جیسے امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کے وقت تھا۔

عمران خان کی گرفتاری کو امریکی اخبارات کیسے دیکھ رہے ہیں؟

عمران خان کو گرفتاری کے بعد اٹک جیل لایا گیا، جس کی ایک سیکیورٹی مچان پر اس تصویر میں ایک پولیس گارڈ کو مستعد کھڑے دیکھا جا سکتا ہے۔ فوٹو اے ایف پی
عمران خان کو گرفتاری کے بعد اٹک جیل لایا گیا، جس کی ایک سیکیورٹی مچان پر اس تصویر میں ایک پولیس گارڈ کو مستعد کھڑے دیکھا جا سکتا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

امریکی اخبارات نے بھی پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری پر تبصرے کیے ہیں۔ اخبار نیو یارک ٹائمز لکھتا ہے کہ یہ فیصلہ مسٹر خان اور پاکستان کی طاقتور فوج کے درمیان اس سیاسی محاذ آرائی میں ایک اہم موڑ ہے، جس میں ملک ایک سال سے زیادہ عرصے سے الجھا ہوا ہے۔

اخبار کا کہنا ہے کہ کرکٹ کی دنیا میں شہرت حاصل کرنے والے عمران خان کو، جنہوں نے خود کو ایک مقبول سیاست دان کے طور پر بھی منوا لیا ہے، عام انتخابات میں حصہ لینے سے نااہل قرار دیے جانے میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی فتح نظر آتی ہے، جو انہیں سیاست سے الگ کر دینے کا فیصلہ کیے بیٹھی ہے۔

اخبار کے مطابق اس وقت تک ملک کے آئندہ انتخابات اس سال موسم خزاں میں متوقع ہیں۔

اخبار کے مطابق اس سے مسٹر خان اور ان کے حامیوں کو جو فوج سے براہ راست متصادم ہوئے اور اس کی مرضی کے خلاف کام بھی کیے ، جو کہ ملک کی 75 سالہ تاریخ میں بس چند ہی لوگوں نے کیا ہے، یہ پیغام بھی گیا ہے کہ حکومت کے پیچھے اسے سیاسی قوت دینے والی صرف فوج ہی ہے۔ چاہے اس پر کتنا ہی عوامی رد عمل کیوں نہ آئے، اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

اخبار لکھتا ہے کہ عدالت کا فیصلہ ملک میں اس وقت سے جاری سیاسی کہانی کا نقطہ عروج ہے جس میں اس وقت سے شدت آئی جب اپریل 2022 میں مسٹر خان کو اقتدار سے الگ کیا گیا۔ اور پھر اس کے بعد کے مہینوں تک ہزاروں لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کیے جس میں انہوں نے ملک کی طاقتور فوجی اسٹیبلشمینٹ کو ہدف بنایا اور پاکستان کے جنرلوں پر خان کو اقتدار سے نکالنے کی منصوبہ بندی کا الزام لگایا۔ تاہم وہ اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔

اخبار تجزیہ کاروں کے حوالے سے لکھتا ہے کہ اس سال مئی میں عمران خان کی گرفتاری پر جس طرح کا رد عمل ہوا تھا، اس کے برعکس اس بار ان کی گرفتاری پر کوئی بڑا رد عمل ہفتے کی شام تک دیکھنے میں نہیں آیا۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فوج کی طرف سے عمران کے حامیوں کو خوف زدہ کرنے کی کوششیں مؤثر ثابت ہوئی ہیں۔

اخبار کے مطابق ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا عمران خان کو اعلی عدالتوں سے کوئی ریلیف مل سکتا ہے، جہاں ان کی سزا کو معطل کیا جا سکے۔

اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بھی عمران خان کی گرفتاری پر سڑکوں پر کسی عوامی ردعمل کی غیر موجودگی کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس بار مسٹر خان کی گرفتاری پر سڑکوں پر کوئی خاص رد عمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ جیسا کہ پہلی بار ایک مختلف کیس میں ان کی گرفتاری پر دیکھا گیا تھا۔ اور اس موقع پر بعد میں سپریم کورٹ نے مداخلت کر کے خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔

اخبار نے لکھا ہے کہ اس وقت سے فوج سمیت پاکستانی حکام نے سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی کے چیئرمین کے حامیوں اور ان کی پارٹی کی لیڈر شپ کے خلاف کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اخبار کے مطابق ان کے بہت سے سیاسی معاونین اور پارٹی کے ارکان فوج کے دباؤ کے پیش نظر پارٹی سے الگ ہو گئے ہیں۔

اخبار لکھتا ہے کہ فوج نے پہلے عمران خان کی حمایت کی تھی لیکن پھر بعد میں وہ طاقتور جنرلوں کے پسندیدہ نہیں رہے تھے۔

عمران خان کا ایک حامی۔ احتجاج کے دوران ۔۔ فائل فوٹو۔رائیٹر
عمران خان کا ایک حامی۔ احتجاج کے دوران ۔۔ فائل فوٹو۔رائیٹر

اخبار لکھتا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں فوج عرصے سے غالب کردار ادا کرتی آ رہی ہے۔ وہ پس پردہ رہ کر سیاسی امیدواروں پر اپنا اثر رکھتی ہے ۔ وہ کئی حکومتوں کو ختم کر چکی ہے۔

گزشتہ سال اپریل میں اپنی حکومت ختم ہونے سے کئی ماہ پہلے خان کا فوج کے اہم عہدوں پر نئی تعیناتیوں، اور ملک میں بڑھتے ہوئے افراط زر اور قرضوں کے معاملے سے نمٹنے کے معاملے پر نکتہ چینی کے سبب فوجی قیادت سے تنازع پیدا ہو گیا تھا۔ یہ بھی لگتا ہے کہ ملک کی خارجہ پالیسی کے بارے میں بھی خان اور فوج کے درمیان اختلافات بڑھ رہے تھے۔

واشنگٹن پوسٹ تجزیہ کاروں کے حوالے سے لکھتا ہے کہ ایسے میں جب کہ ملک اقتصادی بحران کی زد میں ہے۔ اور دہشت گردی کے حملوں کا سلسلہ بھی جاری ہے، ان کی گرفتاری سویلین اور ملٹری لیڈر شپ کے لیے جیلنج بن سکتی ہے۔ اگر خان اپنی قید کے باوجود ، بیلٹ پر اپنی جگہ بنا سکے، تو ان کی مقبولیت اب بھی انتخاب جیتنے میں ان کی مدد کر سکتی ہے۔

(اس تحریر کے لئے کچھ مواد رائٹرز، نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ سے لیا گیا ہے)

فورم

XS
SM
MD
LG