واشنگٹن —
امریکہ نے شام کے صدر بشار الاسد کی جانب سے ملک میں جاری تشدد کے خاتمے کے لیے قومی مفاہمتی کانفرنس بلانے کی تجویز مسترد کرتے ہوئے اسے "حقیقت کے برخلاف" اور "اقتدار سے چمٹے رہنے" کا ایک حربہ قرار دیا ہے۔
اتوار کو صدر بشار الاسد کی جانب سے اپنے ایک عوامی خطاب میں کانفرنس کے انعقاد کی تجویز پیش کیے جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ صدر اسد اپنے اقتدار کا قانونی جواز کھو چکے ہیں۔
'اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ' کی خاتون ترجمان وکٹوریہ نولینڈ کی جانب سے جاری بیان میں صدر اسد سے اقتدار چھوڑنے کے مطالبے کو دہرایا گیا ہے۔
امریکی ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ صدر اسد ایک جانب تو مکالمے کی تجویز پیش کر رہے ہیں لیکن دوسری جانب ان کی حکومت "جان بوجھ کر ملک میں فرقہ ورانہ کشیدگی میں اضافہ" اور اپنے ہی لوگوں کو قتل کر رہی ہے۔
گزشتہ روز دارالحکومت دمشق میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب میں صدر اسد نے ملک میں جاری خانہ جنگی اور محاذ آرائی کا سیاسی حل تلاش کرنے پر زور دیا تھا۔
دمشق کے 'اوپرا ہائوس' میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے شامی صدر نے ملک میں کسی مقبول احتجاجی تجریک کی موجودگی کو جھٹلاتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ شام اپنے "دشمنوں" کے ساتھ جنگ میں مصروف ہے۔
انہوں نے مغربی اور علاقائی طاقتوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ شامی حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کو وسائل اور ہتھیار فراہم کرنے سے باز رہیں۔
شامی صدر نے باغیوں کو 'القاعدہ' کےدہشت گرد قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ وہ شام کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ترکی کے وزیرِ خارجہ احمد اوغلو نے شامی صدر کے حالیہ خطاب پر اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ صدر اسد عوامی مطالبات اور خود اپنی ہی ذمہ داریوں کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔
ترک وزیرِ خارجہ کے بقول صدر اسد کے پاس مستقبل کے لیے کوئی منصوبہ موجود نہیں اور وہ شام میں حزبِ اختلاف کی موجودگی کا انکار کرکے مسئلے کے حل کی جانب نہیں بڑھ سکتے۔
شامی حزبِ اختلاف کے رہنما حکومت کے ساتھ مذاکرات کا آغاز صدر اسد کے مستعفی ہونے سے مشروط کرتے آئے ہیں اور انہوں نے ماضی میں بھی صدر اسد کی جانب سے کی گئی سیاسی پیش کشوں کو مسترد کیا ہے۔
اتوار کو صدر بشار الاسد کی جانب سے اپنے ایک عوامی خطاب میں کانفرنس کے انعقاد کی تجویز پیش کیے جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ صدر اسد اپنے اقتدار کا قانونی جواز کھو چکے ہیں۔
'اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ' کی خاتون ترجمان وکٹوریہ نولینڈ کی جانب سے جاری بیان میں صدر اسد سے اقتدار چھوڑنے کے مطالبے کو دہرایا گیا ہے۔
امریکی ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ صدر اسد ایک جانب تو مکالمے کی تجویز پیش کر رہے ہیں لیکن دوسری جانب ان کی حکومت "جان بوجھ کر ملک میں فرقہ ورانہ کشیدگی میں اضافہ" اور اپنے ہی لوگوں کو قتل کر رہی ہے۔
گزشتہ روز دارالحکومت دمشق میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب میں صدر اسد نے ملک میں جاری خانہ جنگی اور محاذ آرائی کا سیاسی حل تلاش کرنے پر زور دیا تھا۔
دمشق کے 'اوپرا ہائوس' میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے شامی صدر نے ملک میں کسی مقبول احتجاجی تجریک کی موجودگی کو جھٹلاتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ شام اپنے "دشمنوں" کے ساتھ جنگ میں مصروف ہے۔
انہوں نے مغربی اور علاقائی طاقتوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ شامی حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کو وسائل اور ہتھیار فراہم کرنے سے باز رہیں۔
شامی صدر نے باغیوں کو 'القاعدہ' کےدہشت گرد قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ وہ شام کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ترکی کے وزیرِ خارجہ احمد اوغلو نے شامی صدر کے حالیہ خطاب پر اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ صدر اسد عوامی مطالبات اور خود اپنی ہی ذمہ داریوں کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔
ترک وزیرِ خارجہ کے بقول صدر اسد کے پاس مستقبل کے لیے کوئی منصوبہ موجود نہیں اور وہ شام میں حزبِ اختلاف کی موجودگی کا انکار کرکے مسئلے کے حل کی جانب نہیں بڑھ سکتے۔
شامی حزبِ اختلاف کے رہنما حکومت کے ساتھ مذاکرات کا آغاز صدر اسد کے مستعفی ہونے سے مشروط کرتے آئے ہیں اور انہوں نے ماضی میں بھی صدر اسد کی جانب سے کی گئی سیاسی پیش کشوں کو مسترد کیا ہے۔