واشنگٹن —
ایک برطانوی خبر رساں ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی حکام نے افغانستان کے بگرام جیل میں برسوں سے قید 10 پاکستانیوں کو رہا کردیا ہے۔
'رائٹرز' کے مطابق قیدیوں کی رہائی کے لیے سرگرم تنظیم 'جسٹس پروجیکٹ پاکستان' نے جمعرات کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان افراد کی رہائی خاموشی سے عمل میں آئی ہے اور امریکی حکام نے اس سے متعلق ذرائع ابلاغ کو کچھ بتانے سے گریز کیا ہے۔
تنظیم کے مطابق بین الاقوامی امدادی تنظیم 'ریڈ کراس' نے قیدیوں کے اہلِ خانہ کو ان کی رہائی کی اطلاع دی ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ ان افراد کو رہائی کے بعد کہاں لے جایا گیا ہے۔
قیدیوں کو قانونی مدد فراہم کرنے والی ایک اور تنظیم 'ریپریو' کے مطابق رہا ہونے والوں میں سے ایک شخص کو برطانوی فوجی اہلکاروں نے 10 سال قبل عراق میں گرفتار کیا تھا جسے بعد میں افغانستان منتقل کردیا گیا تھا۔
اس نوعیت کی گرفتاریوں کے بارے میں امریکی حکام کا موقف رہا ہے کہ یہ عمل ممکنہ خطرناک لوگوں کو جنگی کارروائیوں سے دور رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
اس سے قبل امریکی حکام نے گزشتہ سال دسمبر میں بھی بگرام جیل میں قید چھ پاکستانیوں کو چپکے سے رہا کرنے کے بعد پاکستانی حکام کے حوالے کردیا تھا۔
پاکستانی حکام نے ان قیدیوں کو مختلف جیلوں میں منتقل کردیا تھا اور ان کی رہائی کئی ہفتوں تک خفیہ رہی تھی۔ حکام نے قیدیوں کے اہلِ خانہ کو بھی ان کی رہائی کے بارے میں مطلع نہیں کیا تھا۔
بعد ازاں 'جسٹس پروجیکٹ پاکستان' کی جانب سے عدالتوں سے رجوع کرنے کے بعد حکام نے ان افراد کی پاکستانی جیلوں میں موجودگی کی تصدیق کی تھی۔
بگرام کے امریکی فوجی اڈے میں قائم جیل کو "افغانستان کا گوانتانامو بے" بھی کہا جاتا ہے جہاں موجود غیر ملکی قیدیوں کے مستقبل کا فیصلہ امریکی فوجی افسران پر مشتمل 'نظرِ ثانی بورڈ' کرتے ہیں۔
'رائٹرز' کے مطابق ان قیدیوں کو نہ تو ان کے خلاف دستیاب شواہد کے بارے میں بتایا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں اپنی مرضی کا وکیل مقرر کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔
امریکی فوجی افسران پر مشتمل بورڈ غیر ملکی قیدیوں کے خلاف شواہد کا جائزہ لینے کے بعد اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ آیا وہ مستقبل میں امریکی فوج کے لیے خطرہ ہوسکتے ہیں یا نہیں جس کےبعد انہیں رہا کرنے یا بدستور قید میں رکھنے کا فیصلہ ہوتا ہے۔
'رائٹرز' کے مطابق 'جسٹس پروجیکٹ پاکستان' سے منسلک وکیل سارہ بلال کا کہنا ہے کہ بگرام جیل میں اب بھی درجنوں افراد بغیر کسی عدالتی کارروائی کے امریکی حکام کی حراست میں ہیں۔
ان کے بقول پاکستانی حکومت کو بگرام سے رہا ہونے والے قیدیوں کے بارے میں ان کے وکلا اور اہلِ خانہ کو فی الفور مطلع کرنا چاہیے تاکہ ان قیدیوں کو دورانِ تفتیش پاکستانی سکیورٹی حکام کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے سے بچایا جاسکے۔
'رائٹرز' کے مطابق قیدیوں کی رہائی کے لیے سرگرم تنظیم 'جسٹس پروجیکٹ پاکستان' نے جمعرات کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان افراد کی رہائی خاموشی سے عمل میں آئی ہے اور امریکی حکام نے اس سے متعلق ذرائع ابلاغ کو کچھ بتانے سے گریز کیا ہے۔
تنظیم کے مطابق بین الاقوامی امدادی تنظیم 'ریڈ کراس' نے قیدیوں کے اہلِ خانہ کو ان کی رہائی کی اطلاع دی ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ ان افراد کو رہائی کے بعد کہاں لے جایا گیا ہے۔
قیدیوں کو قانونی مدد فراہم کرنے والی ایک اور تنظیم 'ریپریو' کے مطابق رہا ہونے والوں میں سے ایک شخص کو برطانوی فوجی اہلکاروں نے 10 سال قبل عراق میں گرفتار کیا تھا جسے بعد میں افغانستان منتقل کردیا گیا تھا۔
اس نوعیت کی گرفتاریوں کے بارے میں امریکی حکام کا موقف رہا ہے کہ یہ عمل ممکنہ خطرناک لوگوں کو جنگی کارروائیوں سے دور رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
اس سے قبل امریکی حکام نے گزشتہ سال دسمبر میں بھی بگرام جیل میں قید چھ پاکستانیوں کو چپکے سے رہا کرنے کے بعد پاکستانی حکام کے حوالے کردیا تھا۔
پاکستانی حکام نے ان قیدیوں کو مختلف جیلوں میں منتقل کردیا تھا اور ان کی رہائی کئی ہفتوں تک خفیہ رہی تھی۔ حکام نے قیدیوں کے اہلِ خانہ کو بھی ان کی رہائی کے بارے میں مطلع نہیں کیا تھا۔
بعد ازاں 'جسٹس پروجیکٹ پاکستان' کی جانب سے عدالتوں سے رجوع کرنے کے بعد حکام نے ان افراد کی پاکستانی جیلوں میں موجودگی کی تصدیق کی تھی۔
بگرام کے امریکی فوجی اڈے میں قائم جیل کو "افغانستان کا گوانتانامو بے" بھی کہا جاتا ہے جہاں موجود غیر ملکی قیدیوں کے مستقبل کا فیصلہ امریکی فوجی افسران پر مشتمل 'نظرِ ثانی بورڈ' کرتے ہیں۔
'رائٹرز' کے مطابق ان قیدیوں کو نہ تو ان کے خلاف دستیاب شواہد کے بارے میں بتایا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں اپنی مرضی کا وکیل مقرر کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔
امریکی فوجی افسران پر مشتمل بورڈ غیر ملکی قیدیوں کے خلاف شواہد کا جائزہ لینے کے بعد اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ آیا وہ مستقبل میں امریکی فوج کے لیے خطرہ ہوسکتے ہیں یا نہیں جس کےبعد انہیں رہا کرنے یا بدستور قید میں رکھنے کا فیصلہ ہوتا ہے۔
'رائٹرز' کے مطابق 'جسٹس پروجیکٹ پاکستان' سے منسلک وکیل سارہ بلال کا کہنا ہے کہ بگرام جیل میں اب بھی درجنوں افراد بغیر کسی عدالتی کارروائی کے امریکی حکام کی حراست میں ہیں۔
ان کے بقول پاکستانی حکومت کو بگرام سے رہا ہونے والے قیدیوں کے بارے میں ان کے وکلا اور اہلِ خانہ کو فی الفور مطلع کرنا چاہیے تاکہ ان قیدیوں کو دورانِ تفتیش پاکستانی سکیورٹی حکام کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے سے بچایا جاسکے۔