صدارتی نامزدگی کی دوڑ میں شامل ہونے والے تازہ ترین ریپبلیکن امید وار ریاست ٹیکسس کے گورنر رک پیری ہیں جو دس برس سے زیادہ عرصے تک گورنر کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ لیکن نامزدگی کے بیشتر امیدواروں کی طرح، خارجہ پالیسی میں ان کا تجربہ محدود ہے۔
ریاست آیووا کے حالیہ دورے میں، جہاں صدارتی انتخاب کا عمل بہت جلدی شروع ہو جاتا ہے،پیری نے کھل کر اسرائیل کے ساتھ امریکہ کے تعلقات اور قومی سلامتی کے بارے میں اظہارِ خیال کیا۔
’’ہم اپنے دوستوں کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے رہیں گے۔ اگر میں امریکہ کا صدر بن گیا تو اسرائیل کو یہ فکر نہیں ہو گی کہ ہم کہاں ہوں گے۔ ہم اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے ۔ اور اگر آپ ہمارے دشمن ہیں تو ہم صرف زبانی جمع خرچ نہیں کریں گے ۔ اگر آپ نے امریکہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ، تو ہم آپ کو شکست دے کر چھوڑیں گے۔‘‘
افغانستان کی جنگ پر بھی امیدوار توجہ دے رہے ہیں، خاص طور سے مباحثوں کے دوران۔ ریپبلیکنز نے ایک طویل عرصے سے افغانستان میں امریکی فوجوں کی موجودگی کی حمایت کی ہے لیکن ایک حالیہ مباحثے میں سرکردہ ریپبلیکن امیدوار، ریاست میسا چوسٹس کے سابق گورنر مٹ رومنی نے کہا کہ عام لوگ افغانستان کی جنگ سے تھک چلے ہیں۔’’اگلے دو برسوں میں کسی وقت ہم اپنی فوجوں کی تعداد کم کریں گے اور ایک ایسے مرحلے میں پہنچ جائیں گے جب افغان فوج طالبان کے استبداد سے اپنے ملک کی خود مختاری کی حفاظت کر سکے ۔ ایسا ہونا ضروری ہے۔‘‘
ریپبلیکن امید واروں کا ایک مقبول ہدف ایران ہے ۔ ان کے خیال میں ایران ، اسرائیل کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے اور امریکہ کی سیکورٹی کے لیے بڑی تشویش کا باعث ہے ۔
ریاست ٹیکسس کے کانگریس مین رون پاؤل وہ واحد امید وار ہیں جو اس جارحانہ انداز سے دور رہتے ہیں۔ و ہ کہتے ہیں کہ اگر ایران نیوکلیئر ہتھیار تیار کر لے، تو بھی وہ اس پر پابندیاں عائد نہیں کریں گے ۔ ریپبلیکن امیدواروں کے ہجوم میں وہ تنہا ہیں جو افغانستان اور عراق کی جنگوں کے خلاف ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’میں کہتا ہوں کہ امن کی پالیسی آزاد تجارت کی طرح ہے ۔ دوسرے ملکوں کے داخلی معاملات سے دور رہو، ان جنگوں میں ملوث نہ ہو، اور اپنے فوجیوں کو گھر واپس لے آؤ۔‘‘
ریاست پینسلوینیا کے سابق سینیٹر رک سینٹورم بھی صدارت کی نامزدگی کے امید وار ہیں۔ انھوں نے رون پاؤل کے تبصرے پر سخت ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا’’جو کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ایران اس ملک کے لیے خطرہ نہیں ہے، یا اس سے مشرقِ وسطیٰ کے استحکام کو خطرہ نہیں ہے، وہ دنیا کو واضح طور سے نہیں دیکھ رہا ہے ۔ وہ دنیا کو بالکل اسی طرح دیکھ رہا ہے جیسے براک اوباما دیکھتے ہیں۔‘‘
ریاست یوٹا کے سابق گورنر جان ہنٹسمین ان چند ریپبلیکن امیدواروں میں سے ہیں جنہیں خارجہ پالیسی کا وسیع تجربہ ہے ۔ اس سال کے شروع میں انھوں نے چین میں صدر اوباما کے سفیر کی حیثیت سے اپنے عہدے کی مدت مکمل کی ۔ وہ روانی سے چینی زبان بولتے ہیں۔ وہ صدر جارج ایچ ڈبلو بش کے تحت 1992 میں سنگاپور میں امریکہ کے سفیر رہ چکے ہیں۔
ایک حالیہ مباحثے میں ہنٹسمین نے اپنے تجربے کا ذکر کرتے ہوئے کہا’’اکیسویں صدی میں جہاں تک آپ کی نظریں جا سکتی ہیں، آپ کو چین سے معاملہ کرنا پڑے گا۔ بہتر ہو کہ ہم اس معاملے کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ میں اس تعلق کو سمجھتا ہوں۔ میں 30 برس سے اس میں مصروف رہا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر امریکہ کا صدر ایسا شخص ہو جو چین کے بارے میں کچھ جانتا ہو، تو یہ بڑی اچھی بات ہو گی۔‘‘
سیاسی تجزیہ کار کہتےہیں کہ اگرچہ انتخابی مہم پر ملکی معیشت کا موضوع چھایا رہے گا، لیکن بیرونی ملکوں کے واقعات، خاص طور سے اگر وہ غیر متوقع ہوں، اگلے سال کے انتخاب پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکیوں کو ملکی معیشت کے مقابلے میں، صدر اوباما پر خارجہ پالیسی کے مسائل سے نمٹنے کے بارے میں زیادہ اعتماد ہے ۔ یہ ایک اور وجہ ہے کہ اوباما پر تنقید میں ریپبلیکن امید وار روزگار اور دوسرے داخلی امور پر زیادہ توجہ دیں گے۔