امریکہ کے آئندہ صدارتی انتخاب کے لیے ری پبلکن کی نامزدگی کے خواہاں امیدوار رک سنٹورم نے اپنے گزشتہ چار برسوں کے ٹیکس گوشوارے ظاہر کردیے ہیں۔
بدھ کی شب جاری کیے گئے ان ٹیکس گوشواروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی سینیٹ کی نشست سے دستبردار ہونے کے بعد گزشتہ چار برسوں میں مسٹر سنٹورم کی آمدنی 35 لاکھ ڈالرز سے زائد رہی ہےجس کا بڑا ذریعہ ان کے واشنگٹن میں موجود لوگوں سے تعلقات ہیں۔
گوشواروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2006ء میں امریکی سینیٹ کی نشست چھوڑنے کے بعد سینٹورم کی آمدنی کے ذرائع عوامی اجتماعات سے خطاب، اداروں کو مشاورت کی فراہمی اور حصص کی خرید و فروخت رہے ہیں۔ ان ذرائع سے سابق سینیٹر کو کانگریس سے نکلنے کے بعد پہلے برس 6 لاکھ 59 ہزار ڈالرز جب کہ گزشتہ برس 10 لاکھ ڈالرز کی آمدنی ہوئی۔
حالیہ انتخابی جائزوں کے مطابق انتخابی دوڑ میں شریک دیگر ری پبلکن امیدواران کے مقابلے میں سنٹورم کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔
سنٹورم کے دادا ایک کوئلے کی کان میں کان کنی کیا کرتے تھے اور سابق سینیٹر نے اپنے اس خاندانی پسِ منظر کو صدارتی دوڑ میں شریک اپنے امیر حریفوں مٹ رومنی اور نیوٹ گنگرچ کے خلاف بخوبی استعمال کیا ہے اور رائے دہندگان کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ اقتدار کے مرکز، یعنی واشنگٹن، کے بجائے عوام سے تعلق رکھتے ہیں۔
تاہم، ٹیکس گوشواروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے حریف امیدواروں کی طرح مسٹر سنٹورم کی آمدنی بھی ٹھیک ٹھاک ہے اور ان کی بیشتر آمدنی کا انحصار دارالحکومت میں موجود افراد سے ان کے تعلقات پر ہے۔
ٹیکس گوشواروں کے اجرا سے امریکی رائے دہندگان کو امیدواروں کی کاروباری سرگرمیاں اور ذرائع آمدنی کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ میں سرمایہ کاری پہ نافذ ٹیکس کی شرح تنخواہوں اور دیگر ذرائع آمدنی پر عائد ٹیکسوں سے کم ہے جس کے باعث ری پبلکن کی انتخابی مہم میں ٹیکسوں کا معاملہ یوں بھی خاصی اہمیت اختیار کرچکا ہے۔
انتخابی دوڑ میں شریک مسٹر رومنی کے ٹیکس گوشواروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2010ء میں ان کی آمدنی دو کروڑ 10 لاکھ ڈالرز رہی جس پر انہوں نے 15 فی صد سے بھی کم ٹیکس ادا کیا۔
اِس کے برعکس دوسرے امیدواروں، مسٹر گنگرچ اور مسٹر سنٹورم کی 2010ء میں آمدنی بالترتیب 30 لاکھ اور 9 لاکھ 30 ہزار ڈالرز رہی لیکن ان دونوں حضرات کی جانب سے ادا کیے گئے ٹیکس کی شرح 25 فی صد سے زائد تھی۔