امریکہ پراس سال 11 ستمبرکو 2001 کے دہشت گرد حملوں کے20 سال مکمل ہو جائیں گے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ جو لوگ اور جو خاندان ان حملوں سے متاثر ہوئے، ان کے زخم اب بھی بھرے نہیں ہیں۔ وہ اب بھی مکمل حقائق جاننے کے منتظر ہیں۔
پیر کے روز امریکی حکومت نے کہا ہے کہ وہ بعض فائلوں کی جانچ کا آغاز کر رہی ہے کیونکہ 11 ستمبر کے حملوں کے متاثرین کی جانب سے صدر بائیڈن سے کہا گیا تھا کہ وہ ان حملوں کی برسی میں اس وقت تک شرکت نہیں کریں گے جب تک وہ دستاویزات ڈی کلاسیفائی نہیں کی جاتیں، جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی لیڈروں نے ان حملوں کی حمایت کی تھی۔
صدر بائیڈن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ قانون کے تحت ان کی حکومت نے شفافیت کو آخری حد تک ممکن بنانے کا عزم کر رکھا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ محکمہ انصاف کی اس رپورٹ کا خیر مقدم کرتے ہیں جس میں عہد کیا گیا ہے کہ استحقاق سے متعلق ان دستاویزات کا از سرِ نو اور جلد از جلد جائزہ لیا جائے گا۔
نیویارک اور واشنگٹن میں ان حملوں میں تقریباً تین ہزار لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ اور اب ان حملوں کی اکیسویں برسی قریب آنے پر، ان کے متاثرین نے گزشتہ جمعے کے روز صدر بائیڈن کے نام ایک خط میں یہ اپیل کی تھی۔
سعودی عرب کہہ چکا ہے کہ اس کا طیارے اغوا کر کے کئے گئے ان حملوں میں کوئی کردار نہیں تھا۔
تاہم، خبر رساں ادارے رائٹرز کا کہنا ہے کہ پیر کے روز واشنگٹن میں سعودی سفارت خانے نے اس بارے میں ردِ عمل کی درخواست کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔
مین ہیٹن میں امریکی اٹارنی، آڈرے سٹراس نے پیر کے روز کہا کہ اب ایف بی آئی کا یہ کہنا ہے کہ وہ اس سے پہلے کے ان دعوؤں کا دوبارہ جائزہ لے رہا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ ان خاندانوں کی جانب سے دستاویزات کے جاری کرنے کی درخواست پر عمل نہیں ہو سکتا۔
پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اب یہ معلومات جلد از جلد جاری کرنا ممکن بنایا جائے گا۔
چنانچہ ستمبر 11 کے حملوں کے متاثرین کے خاندانوں میں سے بعض کے وکیل جیمز کرینڈلر نے کہا ہے کہ انہیں اور ان کے مؤکلین کو توقع ہے کہ ایف بی آئی اور محکمہ انصاف کے اقدامات کے تحت ہم ان دستاویزات تک رسائی حاصل کر لیں گے جن کا مطالبہ ہم برسوں سے کر رہے ہیں۔
کرینڈلر نے مزید کہا کہ ان دستاویزات میں ان حملوں کی چھان بین کی رپورٹیں شامل ہیں اور 11 ستمبر کے حملوں کے' آپریشن اینکور' نامی جائزے سے متعلق دستاویزات بھی جو ایف بی آئی نے 2016 میں کروایا تھا۔
امریکہ پر ان حملوں کے بیس سال پورے ہونے کو ہیں اور ان حملوں کے متاثرین کے خاندانوں کا کہنا ہے کہ امریکی ادارے برسوں سے ان دستاویزات پر کوئی کارروائی نہیں کر رہے، جن میں ان حملوں کا سعودی عرب سے تعلق بیان کیا گیا ہے۔
بریٹ ایگلسن کے والد بروس ایگلسن ان حملوں میں موت کا شکار ہوئے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اس بات کو سراہتے ہیں کہ صدر بائیڈن نے آج ہمارے ان خاندانوں کو تسلیم کر لیا ہے جو سعودی عرب کے خلاف انصاف کے حصول کے لئے کوشاں ہیں۔
تاہم، ایگلسن نے ایک بیان میں مزید کہا کہ ہم اس سے پہلے بھی کئی کھوکھلے وعدے سن چکے ہیں۔
متاثرین کے ان خاندانوں کے استفسار کی فہرست بہت طویل ہے اور انتظار دو عشروں سے زیادہ۔
ایگلسن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکی محکمہ انصاف اگر فوری کارروائی کرے تو اس بارے میں دستاویزات سامنے آ سکتی ہیں جن میں ایف بی آئی کی 2016 کی وہ رپورٹ بھی شامل ہے جس میں کچھ بھی حذف نہیں کیا گیا تھا اور جو سعودی عرب کے ان ایجنٹوں کی برسوں کی چھان بین سے متعلق ہے جن کے بارے میں خیال ہے کہ انہوں نے ہائی جیکرز کو خاصی مدد فراہم کی تھی۔
(اس خبر میں معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں۔)