سولہ سال قبل، امریکی محکمہ دفاع پر حملہ ہوا تھا۔ امریکن ائیر لائنز فلائٹ 77 کو ہائی جیک کر کے اسے پنٹاگان سے ٹکرا دیا گیا تھا جس سے طیارے میں سوار تمام مسافر اور عمارت میں کام کرنے والے 125 لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔
وائس آف امریکہ کی پنٹاگان کی نمائندہ کارلا باب نے اس حملے سے ہمیشہ کےلیے متاثر ہونے والے دو افراد، سی این این کے صحافی جیمی میکن ٹائر اور نائن الیون پنٹاگان میموریل فنڈ کے صدر جیمز لے چک کی کہانی ان ہی کی زبانی پیش کر رہی ہیں اور وہ ہمیں نائن الیون کے پنٹاگان میموریل پر بھی لے جا رہی ہیں جو ان کی یاد میں تعمیر کی گئی یاد گار ہے جو اس دن ہلاک ہوئے اور یہ وہ دن تھا جس دن نے دنیا کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کر دیا۔
سی این این کے صحافی جیمز میکن ٹائرکہتے ہیں، مجھے یہ زمین ہمیشہ مقدس محسوس ہوتی ہے۔ میں یہاں گیارہ ستمبر کو کھڑا تھا۔ اور آپ میرے پیچھے سے آنے والا کچھ دھواں دیکھ سکتے ہیں۔
اور جو اس واقعے سے گذرا یہ ایک طرح سے اس کی زندگی کا ایک یاد گار واقعہ تھا۔
وہ ایک جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ دھواں ظاہر کرتا ہے کہ پورا طیارہ ایک جانب سے پنٹاگان سے ٹکرا گیا تھا۔
نائن الیون پنٹاگان میموریل فنڈ کے صدر جیمز کہتے ہیں کہ پنٹاگان کے اس حملے میں 184 لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ 125 عمارت کے اندر موجود تھے اور 59 افراد طیارے پر سوار تھے۔ میرے برادر نسبتی ، جو ڈی سی ہومی سائڈ پولیس میں تھے عمارت سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے کیوں کہ وہ ایف بی آئی کے لوگوں کو جانتے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ہمیں بد ترین حالات کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔ اگر حملے کے چار یا پانچ گھنٹے کے اندر لوگ عمارت سے باہر نہیں آتے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ پھر کبھی باہر نہیں آئیں گے۔
اور صحافی جیمی میکن ٹائر کہتے ہیں کہ اس عمارت کو دیکھنا، جو ایک بہت شاندار عمارت ہے اور جو لگ بھگ ایک چھوٹا قلعہ دکھائی دیتی ہے، اس کے ایک حصے کو گر کر ملبے میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھنا اور ان لوگوں کی تعداد کا إحساس کرنا جو عمارت کے اندر اور طیارے میں ہلاک ہوئے، یہ ان دنوں میں سے ایک تھا جب آپ یہ محسوس کر سکتے تھے کہ دنیا تبدیل ہو رہی ہے۔
نائن الیون پنٹاگان میموریل فنڈ کے صدر جیمز کہتے ہیں کہ میرے چھوٹے بھائی ڈیونائن الیون کے دن پنٹاگان کے اندر ہلاک ہوئے تھے ۔ میں یہ کام اپنے بھائی کی یاد میں اور ان تمام لوگوں کے احترام میں کرتا ہوں جو یہاں ہلاک ہوئے اور اس لیے ہم انہیں کبھی فراموش نہیں کرتے اور میں لوگوں کو یہ یاد دلانے کے لیے یہ کام کرتا ہوں کہ اس دن کیا واقعہ پیش آیا تھا۔
جیمز لے چک کہتے ہیں کہ جب آپ ا ندر داخل ہوتے ہیں تو سب سے پہلے وہ جگہ زیرو لائن ہے تو بنیادی طور پر آپ اس جگہ داخل ہوتے ہیں تو گویا یہ گیارہ ستمبر 2001 ہے اور حملہ صبح نو بج کر 37 منٹ پر ہوا تھا۔
وہ مزید کہتے ہیں، آپ یہاں سب سے پہلے کچھ بینچ دیکھتے ہیں اور اگر آپ اندازہ لگاتے ہیں کہ اگر یہ سن 2001 ہے اور آپ کو ایک جگہ عمر کے لیے 1998 نظر آتا ہے تو آپ سوچنا شروع کرتے ہیں کہ یہ ایک تین سال کی بچی ڈانا فالکن برگ ہے جو اپنے والدین کے ساتھ سفر کر رہی تھی اور وہ طیارے پر ہلاک ہوگئی تھی، ڈانا فلائٹ 77 میں ہلاک ہوئی تھی کیوں کہ اس یادگار کے پس منظر میں آسمان ہے۔
جیمز اپنے بھائی کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، یہ در اصل میرے بھائی کی بنچ ہے، عمر کی جگہ جو سال لکھا ہے وہ 1961 ہے یعنی میرے بھائی کی تاریخ پیدائش، اور جب میں اس نام کو پڑھتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ اس کے پیچھے پنٹاگان ہے تو یہ چیز اجاگر کرتی ہے کہ یہ ایک ایسا شخص ہے جو محکمہ دفاع کی عمارت کے ندر ہلاک ہو ا تھا۔
جیمز بتاتے ہیں کہ ان بینچوں کو طیارے کے اس راستے کی طرح بھی ترتیب دی گئی ہے جس طرح وہ عمارت کے ندر داخل ہوا تھا۔ آپ ایک طرح سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ طیارہ کہاں سے ٹکرا یا تھا۔ اس کے ڈیزائنر اسے ایک ایسی جگہ بنانا چاہتے تھے جو منفرد ہو۔ کیوں کہ نائن الیون بھی ایک ایسا دن تھا جس کی اور کوئی مثال نہیں ہے۔ یہ عمارت اس حملے میں ہلاک ہونے والوں کے عزیز واقارب اور یہاں آنے والوں کو یہی چیز دکھائی جاتی ہے۔
نائن الیون میموریل فنڈ ایک ایسے وزیٹر سینٹر کی تعمیر کے لیے رقوم جمع کررہا ہے جو ہلاک ہونے والے افراد کی کہانیاں سنانے میں مدد کر سکے۔