واشنگٹن —
امریکہ میں صحت ِ عامہ کی ایک تنظیم ’سنٹر فار سائنس ان دا پبلک انٹرسٹ‘ نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ایک عام امریکی کی چینی لینے کی شرح کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرے۔
اس تنظیم نے چون صفحوں پر مشتمل ایک پٹیشن بدھ کے روز امریکہ کے محکمہ ِ خوراک اور دوا سازی میں داخل کرائی ہے۔ اس پٹیشن کا مقصد امریکہ میں بڑھتے ہوئے موٹاپے پر قابو پانے کے لیے اقدامات کرنا ہے۔ امریکہ میں اس وقت ایک تہائی بالغ افراد جبکہ دو سے انیس برس کے بچوں کی ایک تہائی تعداد موٹاپے کا شکار ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ امریکہ میں موٹاپے کی ایک بڑی وجہ میٹھے مشروبات میں موجود اضافی حرارے ہیں۔ یہ میٹھے مشروبات عام امریکیوں کی زندگی کا ایک لازمی جزو ہیں۔ یوں وہ موٹاپے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات ان مشروبات کے استعمال کی وجہ سے وہ ذیابیطیس اور دل کی بیماریوں جیسے مہلک امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
امریکہ میں ماضی میں بھی اس نوعیت کی درخواستیں دائر کی جا چکی ہیں اور ان کے جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایسی درخواستوں پر زیادہ تر حکومت کی جانب سے اقدامات نہیں اٹھائے جاتے۔ امریکہ میں مشروبات کے اداروں کی تنظیم بھی اس الزام کی بھی پرزور تردید کرتی رہی ہے کہ امریکہ میں بڑھتے ہوئے موٹاپے میں میٹھے مشروبات کوئی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
امریکہ میں مشروبات کے اداروں کی تنظیم کی جانب سے ایک حالیہ بیان میں کہا گیا ہے کہ، ’’موٹاپے سے بچاؤ کے لیے ہر کسی کو اپنا عملی کردار ادا کرنا چاہیئے۔ اور اس پٹیشن میں اس بات کو یکسر فراموش کیا گیا ہے۔‘‘
دوسری طرف پٹیشن دائر کرنے والے ادارے کے سربراہ مائیکل جیکب سن کو امید ہے کہ بدھ کو دائر کی جانے والی پٹیشن کے نتیجے میں میٹھے مشروبات اور سوڈا بنانے والے ادارے اس بات پر مجبور ہو جائیں گے کہ وہ ان مشروبات میں کم سے کم چینی استعمال کریں۔ جیکب سن کہتے ہیں کہ، ’’کوکا کولا، پیپسی اور اس طرز کے دیگر مشروبات کا موجودہ فارمولا انسانی صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ امریکی محکمہ ِ خوراک و دوا سازی کو چینی کے ان مشروبات کی تیاری کے لیے نئے فارمولے تیار کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیئے تاکہ یہ مشروبات لوگوں کی صحت کو متاثر نہ کریں۔‘‘
امریکی محکمہ ِ زراعت کی جانب سے کرائے گئے ایک جائزے کے نتائج بتاتے ہیں کہ ایک عام امریکی روزانہ اوسطا اٹھارہ سے تئیس ٹی سپون چینی استعمال کرتا ہے۔ جس سے اس کی خوراک میں تین سو سے چار سو حراروں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ماہرین ِ صحت کے نزدیک یہ رجحان درست نہیں۔
اس تنظیم نے چون صفحوں پر مشتمل ایک پٹیشن بدھ کے روز امریکہ کے محکمہ ِ خوراک اور دوا سازی میں داخل کرائی ہے۔ اس پٹیشن کا مقصد امریکہ میں بڑھتے ہوئے موٹاپے پر قابو پانے کے لیے اقدامات کرنا ہے۔ امریکہ میں اس وقت ایک تہائی بالغ افراد جبکہ دو سے انیس برس کے بچوں کی ایک تہائی تعداد موٹاپے کا شکار ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ امریکہ میں موٹاپے کی ایک بڑی وجہ میٹھے مشروبات میں موجود اضافی حرارے ہیں۔ یہ میٹھے مشروبات عام امریکیوں کی زندگی کا ایک لازمی جزو ہیں۔ یوں وہ موٹاپے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات ان مشروبات کے استعمال کی وجہ سے وہ ذیابیطیس اور دل کی بیماریوں جیسے مہلک امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
امریکہ میں ماضی میں بھی اس نوعیت کی درخواستیں دائر کی جا چکی ہیں اور ان کے جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایسی درخواستوں پر زیادہ تر حکومت کی جانب سے اقدامات نہیں اٹھائے جاتے۔ امریکہ میں مشروبات کے اداروں کی تنظیم بھی اس الزام کی بھی پرزور تردید کرتی رہی ہے کہ امریکہ میں بڑھتے ہوئے موٹاپے میں میٹھے مشروبات کوئی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
امریکہ میں مشروبات کے اداروں کی تنظیم کی جانب سے ایک حالیہ بیان میں کہا گیا ہے کہ، ’’موٹاپے سے بچاؤ کے لیے ہر کسی کو اپنا عملی کردار ادا کرنا چاہیئے۔ اور اس پٹیشن میں اس بات کو یکسر فراموش کیا گیا ہے۔‘‘
دوسری طرف پٹیشن دائر کرنے والے ادارے کے سربراہ مائیکل جیکب سن کو امید ہے کہ بدھ کو دائر کی جانے والی پٹیشن کے نتیجے میں میٹھے مشروبات اور سوڈا بنانے والے ادارے اس بات پر مجبور ہو جائیں گے کہ وہ ان مشروبات میں کم سے کم چینی استعمال کریں۔ جیکب سن کہتے ہیں کہ، ’’کوکا کولا، پیپسی اور اس طرز کے دیگر مشروبات کا موجودہ فارمولا انسانی صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ امریکی محکمہ ِ خوراک و دوا سازی کو چینی کے ان مشروبات کی تیاری کے لیے نئے فارمولے تیار کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیئے تاکہ یہ مشروبات لوگوں کی صحت کو متاثر نہ کریں۔‘‘
امریکی محکمہ ِ زراعت کی جانب سے کرائے گئے ایک جائزے کے نتائج بتاتے ہیں کہ ایک عام امریکی روزانہ اوسطا اٹھارہ سے تئیس ٹی سپون چینی استعمال کرتا ہے۔ جس سے اس کی خوراک میں تین سو سے چار سو حراروں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ماہرین ِ صحت کے نزدیک یہ رجحان درست نہیں۔