واشنگٹن —
امریکہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ امریکہ کے خلاف چین سے ہونےوالے سائبر حملوں کے باعث بیجنگ کی ساکھ متاثر ہورہی ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں پر برا اثر پڑ رہا ہے۔
امریکہ کے انڈر سیکریٹری برائے معاشی ترقی، توانائی اور ماحولیات رابرٹ ہارمٹس نے منگل کو ایک انٹرویو میں کہا کہ چین سے بڑی تعداد میں ہونے والے سائبر حملوں کے نتیجے میں امریکی حکومت اور بزنس کمیونٹی بیجنگ سے بدظن ہورہی ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے ساتھ گفتگو میں رابرٹ ہارمٹس کا کہنا تھا کہ کمپیوٹر سسٹم میں جاسوسی کی نیت سے داخل ہونے کے واقعات خاص طور پر باعثِ تشویش ہیں جس کےباعث کاروباری افراد چین میں سرمایہ کاری سے گریز کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ امریکہ کی ایک کمپیوٹر سیکیورٹی فرم نے فروری میں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں امریکہ پر ہونے والے بیشتر سائبر حملوں کا الزام چین پر عائد کیا گیا تھا۔
لیکن چین سائبر حملوں کے امریکی الزامات کی تردید کرتا آیا ہے اور اس کا دعویٰ رہا ہے کہ اس پر ہونے والے سائبر حملوں کے پیچھے خود امریکہ کا ہاتھ ہے۔
اپنی گفتگو میں امریکی انڈر سیکریٹری کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کو سائبر حملوں سے متعلق معاملات پر مذاکرات کرنا چاہئیں جن کا مقصد ان کے بقول، اس طرح کے "ہتھکنڈوں" کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے۔
دریں اثنا چین کے انٹرنیٹ سے متعلق امور کے نائب وزیر کیان شیائو کیان نے امریکی الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین انٹرنیٹ کے غلط استعمال میں ملوث نہیں اور دیگر ممالک کو بھی انٹرنیٹ کے وسائل کا غلط استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
بیجنگ میں ہونے والے 'یو ایس-چائنا انٹرنیٹ انڈسٹری فورم' سے خطاب میں چینی نائب وزیر نے کہا کہ رواں سال کے صرف ابتدائی دو ماہ میں چین پر بیرونِ ملک سے 6600 سے زائد سائبر حملے کیے گئے ۔
انہوں نے کہا کہ ممالک 'سائبر اسپیس' کو جنگی میدان بنانے سے گریز کرنا چاہیے کیوں کہ "اس طرح کے حملے دوسرے ممالک کے حقوق اور اخلاقی اصولوں کے خلاف ہیں"۔
فورم میں شریک امریکی اور چینی حکام اور مقررین نے سائبر سیکیورٹی کے معاملات پر دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کےآغاز پر زور دیا۔
امریکہ کے انڈر سیکریٹری برائے معاشی ترقی، توانائی اور ماحولیات رابرٹ ہارمٹس نے منگل کو ایک انٹرویو میں کہا کہ چین سے بڑی تعداد میں ہونے والے سائبر حملوں کے نتیجے میں امریکی حکومت اور بزنس کمیونٹی بیجنگ سے بدظن ہورہی ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے ساتھ گفتگو میں رابرٹ ہارمٹس کا کہنا تھا کہ کمپیوٹر سسٹم میں جاسوسی کی نیت سے داخل ہونے کے واقعات خاص طور پر باعثِ تشویش ہیں جس کےباعث کاروباری افراد چین میں سرمایہ کاری سے گریز کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ امریکہ کی ایک کمپیوٹر سیکیورٹی فرم نے فروری میں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں امریکہ پر ہونے والے بیشتر سائبر حملوں کا الزام چین پر عائد کیا گیا تھا۔
لیکن چین سائبر حملوں کے امریکی الزامات کی تردید کرتا آیا ہے اور اس کا دعویٰ رہا ہے کہ اس پر ہونے والے سائبر حملوں کے پیچھے خود امریکہ کا ہاتھ ہے۔
اپنی گفتگو میں امریکی انڈر سیکریٹری کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کو سائبر حملوں سے متعلق معاملات پر مذاکرات کرنا چاہئیں جن کا مقصد ان کے بقول، اس طرح کے "ہتھکنڈوں" کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے۔
دریں اثنا چین کے انٹرنیٹ سے متعلق امور کے نائب وزیر کیان شیائو کیان نے امریکی الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین انٹرنیٹ کے غلط استعمال میں ملوث نہیں اور دیگر ممالک کو بھی انٹرنیٹ کے وسائل کا غلط استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
بیجنگ میں ہونے والے 'یو ایس-چائنا انٹرنیٹ انڈسٹری فورم' سے خطاب میں چینی نائب وزیر نے کہا کہ رواں سال کے صرف ابتدائی دو ماہ میں چین پر بیرونِ ملک سے 6600 سے زائد سائبر حملے کیے گئے ۔
انہوں نے کہا کہ ممالک 'سائبر اسپیس' کو جنگی میدان بنانے سے گریز کرنا چاہیے کیوں کہ "اس طرح کے حملے دوسرے ممالک کے حقوق اور اخلاقی اصولوں کے خلاف ہیں"۔
فورم میں شریک امریکی اور چینی حکام اور مقررین نے سائبر سیکیورٹی کے معاملات پر دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کےآغاز پر زور دیا۔