واشنگٹن —
اتوار کے روز جینیوا میں ایران اور دنیا کی چھ بڑی طاقتوں کے درمیان تہران کے متنازع جوہری پروگرام سے متعلق معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے ساتھ ساتھ ایران پر عائد بعض اقتصادی پابندیوں میں نرمی پر بھی اتفاق کیا گیا۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ عالمی منڈی میں ایران کے تیل کی خریداری کے حوالے سے نرمی یا مغربی سرمایہ کاروں کی طرف سے ایران سے تیل کی خریداری کے لیے کوئی اجازت نامہ نہیں ہے۔ واشنگٹن کی طرف سے یہ بھی واضح کیا گیا کہ ایران کے جوہری پروگرام پر معاہدے سے امریکہ کی جانب سے ایران کے تیل کی خریداری کے لیے مزید پابندیاں نہیں لگائی جائیں گی۔
اس سے قبل اتوار کے روز جینیوا میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ایران کے متنازع جوہری پروگرام کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا جس کی رُو سے ایران پر عائد کردہ پابندیوں میں نرمی برتی جائے گی۔
امریکہ اور یورپ کی جانب سے ایران سے تیل کی برآمدگی پرعائد کردہ پابندیوں کی وجہ سے مغرب کی انرجی کمپنیاں ایران سے تیل کی خریداری کی مجاز نہیں ہیں۔ ان پابندیوں کی وجہ سے ایران کی تیل کی برآمدگی 2.5 ملین بیرل یومیہ سے کم ہو کر 1 بلین بیرل یومیہ رہ گئی ہے، اور فی الحال یہی پالیسی نافذ العمل رہے گی۔
امریکی محکمہ ِخارجہ کی ویب سائیٹ پر وائیٹ ہاؤس کی جانب سے شائع کردہ ایک ’فیکٹ شیٹ‘ کے مطابق، ’اگلے چھ ماہ میں ایران کے خام تیل کی فروخت میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ اس پہلے مرحلے تک، یورپ کی جانب سے ایران کے خام تیل پر پابندی برقرار رہے گی اور ایران کی خام تیل کی آمدن ایک ملین بیرل یومیہ سے زیادہ نہیں ہوگی جس کے نیتجے میں ایران کو ماہانہ مزید چار بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑے گا‘۔
امریکی قانون سازوں نے ایران کی تیل کے برآمدگی کے حوالے سے مزید پابندیوں کا پلان تیار کر رکھا ہے مگر امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اگلے چھ ماہ تک ایران پر جوہری حوالے سے کوئی نئی پابندی عائد نہیں کرے گی۔ امریکہ کے مطابق اگلے چھ ماہ میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا آیا ایران جوہری معاہدے کی پاسداری کرتا ہے یا نہیں۔
ایران کی جانب سے تیل کی برآمدگی نہ ہونے کے باعث سعودی عرب کو تیل کی پیداوار بڑھانا پڑے گی جو کہ پہلے ہی رواں برس تیل کی ریکارڈ حد تک پیداوار بڑھا چکا ہے۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ عالمی منڈی میں ایران کے تیل کی خریداری کے حوالے سے نرمی یا مغربی سرمایہ کاروں کی طرف سے ایران سے تیل کی خریداری کے لیے کوئی اجازت نامہ نہیں ہے۔ واشنگٹن کی طرف سے یہ بھی واضح کیا گیا کہ ایران کے جوہری پروگرام پر معاہدے سے امریکہ کی جانب سے ایران کے تیل کی خریداری کے لیے مزید پابندیاں نہیں لگائی جائیں گی۔
اس سے قبل اتوار کے روز جینیوا میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ایران کے متنازع جوہری پروگرام کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا جس کی رُو سے ایران پر عائد کردہ پابندیوں میں نرمی برتی جائے گی۔
امریکہ اور یورپ کی جانب سے ایران سے تیل کی برآمدگی پرعائد کردہ پابندیوں کی وجہ سے مغرب کی انرجی کمپنیاں ایران سے تیل کی خریداری کی مجاز نہیں ہیں۔ ان پابندیوں کی وجہ سے ایران کی تیل کی برآمدگی 2.5 ملین بیرل یومیہ سے کم ہو کر 1 بلین بیرل یومیہ رہ گئی ہے، اور فی الحال یہی پالیسی نافذ العمل رہے گی۔
امریکی محکمہ ِخارجہ کی ویب سائیٹ پر وائیٹ ہاؤس کی جانب سے شائع کردہ ایک ’فیکٹ شیٹ‘ کے مطابق، ’اگلے چھ ماہ میں ایران کے خام تیل کی فروخت میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ اس پہلے مرحلے تک، یورپ کی جانب سے ایران کے خام تیل پر پابندی برقرار رہے گی اور ایران کی خام تیل کی آمدن ایک ملین بیرل یومیہ سے زیادہ نہیں ہوگی جس کے نیتجے میں ایران کو ماہانہ مزید چار بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑے گا‘۔
امریکی قانون سازوں نے ایران کی تیل کے برآمدگی کے حوالے سے مزید پابندیوں کا پلان تیار کر رکھا ہے مگر امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اگلے چھ ماہ تک ایران پر جوہری حوالے سے کوئی نئی پابندی عائد نہیں کرے گی۔ امریکہ کے مطابق اگلے چھ ماہ میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا آیا ایران جوہری معاہدے کی پاسداری کرتا ہے یا نہیں۔
ایران کی جانب سے تیل کی برآمدگی نہ ہونے کے باعث سعودی عرب کو تیل کی پیداوار بڑھانا پڑے گی جو کہ پہلے ہی رواں برس تیل کی ریکارڈ حد تک پیداوار بڑھا چکا ہے۔