امریکی کانگریس کے متعدد ارکان سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورت حال، یمن میں جاری لڑائی اور گزشتہ برس ترکی میں سعودی صحافی جمال خشوگی کے قتل سے متعلق شدید تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں اور توقع ہے کہ امریکی سینیٹ اس ہفتے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو 8 ارب ڈالر کے اسلحے کی فروخت رکوانے کی کوشش کرے گی۔
امریکی سینیٹ میں سعودی عرب سے متعلق گرما گرم بحث جاری ہے۔ رپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ موجودہ تعلقات امریکی مفاد میں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ اس وقت تک ایسا نہیں ہونے دیں گے جب تک سعودی عرب میں صورت حال تبدیل نہیں ہو جاتی۔
ڈیموکریٹک سینیٹر کرس مرفی کہتے ہیں کہ ایسا کون سا اتحادی ہو سکتا ہے جو اپنے ایک شہری کو اغوا کرے، جو ہم سے تحفظ فراہم کرنے کی درخواست کر رہا ہو، آپ اسے قونصل خانے میں بلائیں، اس کے ٹکڑے ٹکڑے کریں اور اس طرح اسے غائب کر دیں۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تعلقات کا پول کھل چکا ہے۔
چند ماہ قبل سینیٹ نے یمن میں جاری ہلاکت خیز جنگ کے دوران سعودی عرب کی طرف سے بمباری میں تعاون فراہم کرنے سے متعلق ایک قرارداد کو معمولی اکثریت سے منظور کر لیا تھا۔ تاہم اب توقع ہے کہ امریکی کانگریس سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو امریکی اسلحے کی فروخت کی مخالفت میں ووٹ دے گی۔
صدر ٹرمپ کی طرف سے قومی ایمرجنسی کا سہارا لیتے ہوئے اسلحے کی فروخت جلد مکمل کرنے کے اقدام پر کانگریس میں دونوں جماعتوں کے ارکان برہمی کا اظہار کر ہے ہیں۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر رابرٹ مینینڈس کہتے ہیں کہ انہیں یہ خوشی ہے کہ وہ اس ایوان میں اکیلے رکن نہیں ہیں جسے صدر کی طرف سے کانگریس کو بائی کرنے اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی کشیدگی کا باعث بننے والے حالات کا ادراک کیے بغیر سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرنے پر اعتراض ہے۔
اس اقدام کی مخالفت میں قرارداد کی منظوری کے لیے ایوان میں معمولی اکثریت موجود ہے۔ تاہم یہ بات یقینی نہیں ہے کہ صدر ٹرمپ کی طرف سے اس قرارداد کو ویٹو کرنے کے اقدام کے خلاف مطلوبہ دو تہائی اکثریت حاصل ہو سکے گی۔ سینیٹ نے گزشتہ ہفتے بحرین اور قطر کو اسلحے کی فروخت روکنے سے متعلق بحث کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
امریکی کانگریس کے بیشتر رپبلکن ارکان مشرق وسطیٰ کو اسلحے کی فروخت کی حق میں رہے ہیں۔ رپبلکن سینیٹر ٹام کوٹن کا کہنا ہے کہ امریکی پابندیوں کے تناظر میں ایران کی معیشت بگڑ رہی ہے اور اس کے رد عمل میں ایران کے آیت اللہ دنیا بھر کے خلاف سخت برہمی کا اظہار کر رہے ہیں۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ ہم اس خطرناک صورت حال میں خلیج میں اپنے اتحادیوں کا ساتھ دیں تاکہ وہ ایران کی طرف سے ممکنہ جارحیت کے خلاف اپنا دفاع کر سکیں۔
تاہم دیگر رپبلکن ارکان کا خیال ہے کہ اسلحے کی فروخت روکنے سے مشرق وسطیٰ کے ممالک کو امریکہ کے مخالف ملکوں سے اسلحہ حاصل کرنے کی ترغیب ملے گی۔