’ہیومن رائٹس واچ‘ نے جمعرات کو اپنی رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق، 15 مارچ کو یمن کی مارکیٹ پر سعودی قیادت والے اتحاد کی جانب سے کیے جانے والے حملے میں، جس میںں کم از کم 100 افراد ہلاک ہوئے، استعمال ہونے والے بم امریکی ساختہ تھے۔
انسانی حقوق کے گروپ کے مطابق، ہلاک شدگان میں 25 بچے شامل تھے۔ اس فضائی حملے میں 47 افراد زخمی ہوئے، جسے یمن کی جنگ کا سال بھر کا مہلک ترین حملہ قرار دیا جاتا ہے۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ کی ہنگامی صورت حال کی تحقیق کار، پریانکا موٹاپارتھی کے الفاظ میں ’’اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اسلحہ بیچنے والے ملکوں کو سعودی عرب کو یہ ہتھیار نہیں دینے چاہئیں‘‘۔
ہیومن رائٹس گروپ کے تفتیش کاروں نے صوبہٴ حجہ کے اُس مقام کی جانب سفر کیا، جو شیعہ باغی (حوثیوں) کے کنٹرول میں ہے۔
بم کی برآمد ہونے والی باقیات کے لیے بتایا جاتا ہے کہ یہ ’جی بی یو 31 قسم کے سیٹلائٹ گائڈڈ بم تھے، جو امریکہ کی جانب سے فراہم کردہ اسلحے کے ٹکڑے ہیں۔
یہی رائے برطانیہ کے نیوز چینل ’آئی ٹی وی‘ کی بھی ہے، جس نے 26 مارچ کو چھان بین کا کام کیا۔ یہ رپورٹ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے دورہٴ بحرین کے موقع پر جاری کی گئی ہے۔
کیری نے صورت حال کے بارے میں بیان دینے سے احتراز کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرے پاس کوئی ٹھوس معلومات، کوئی دستاویز نہیں آیا کون سا ہتھیار استعمال ہوا‘‘۔
انسانی حقوق کے تنظیم کے الفاظ میں، ’’حالانکہ سعودی حکام نے کہا ہے کہ فضائی کارروائی میں ہلاک ہونے والوں کی اکثریت حوثی باغیوں کی تھی۔ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ حملے کے نتیجے میں شہریوں کی بے تحاشہ ہلاکت واقع ہوئی جو لڑائی کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ ایسے غیر قانونی حملے جب دانستہ اور بے دردی سے کیے جائیں تو وہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں‘‘۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر امریکہ، برطانیہ اور فرانس خیال نہ کرنے والے سعودی عرب کو اسلحے کی رسد جاری رکھتے ہیں، تو اُنھیں بھی ہونے والی غیر قانونی فضائی کارروائی کا ذمہ دار قرار دیا جائے گا۔